تحریر: محمد عادل (بہرائچ، یوپی)
رابطہ! 6388175558
زوال کا وقت شروع ہوچکا تھا، تمازت آفتاب قہر برپا کررہی تھی، سورج سر کے اوپر آچکا تھا ، گرمی ناقابلِ برداشت تھی، ظہر کی اذان میں تقریباً ایک گھنٹہ باقی تھا، رمضان کا مہینہ چل رہا تھا، میں روزے سے تھا، ذرا مسجد کے ایک گوشہ میں دم لینے کے لئے جا ٹھرا تھا کہ نیند کی آغوش میں چلا گیا، جب آنکھ کھلی تو پوری مسجد میں سناٹا چھایا ہوا تھا لیکن مسجد کے ایک گوشہ سے دلدوز سسکیوں کی آوازیں آرہی تھی، عجیب آہ و بکا کی کیفیت تھی جو ناقابلِ برداشت تھی، میں ذرا سا قریب گیا تو پچیس سال کا ایک نوجوان زار و قطار رو رہا تھا، آنکھوں سے اشکوں کا سیلاب جاری تھا، اور وہ سجدے میں پڑا بار بار یہ کلمات دوہرا رہا تھا” اے اللہ میرے گناہوں کو معاف فرما اور مجھے ہدایت عطا فرما” اور برابر سسکیاں لے رہا تھا، میرے لئے دیکھنا محال تھا، میں سمجھ نہیں سکتا تھا کہ ایک نوجوان کے یوں زار و قطار رونے کی آخر کیا وجہ ہوسکتی ہے، میں نے پیروں سے کھٹ پٹ کی آواز لگائی تو اس نوجوان نے سجدے سے سر اٹھایا اور اشک صاف کرنے لگا، میں نے قریب جاکر اسکے کندھے پر ہاتھ رکھا اور رونے کی وجہ پوچھی، میرے پوچھنے پر اسکی انکھوں نے مزید سیل اشک رواں کردیا اور اس نے کہا، میرے لئے دعا کیجیے ایک گناہ مجھ سے نہیں چھوٹ رہا ہے، میں نے کہا گناہ تو ہر شخص سے سرزد ہوجاتا ہے، ہر شخص گناہ گار ہے ، کہنے لگا نہیں رمضان کا مہینہ ہے، میں نے تہجد کی نماز پڑھی، اور صبح کی نماز کی امامت بھی کی اور روزے سے تھا لیکن نفس پر شہوت کا غلبہ ہوا اور ابھی تک تین بار مشت زنی میں ملوث ہوچکا ہوں، اتنا سننا تھا کہ میری آواز جیسے غائب ہو گئی، پھر اس نے بتایا کہ یہی نہیں بلکہ پندرہ سال کی عمر سے میں یہ گناہ کررہا ہوں، بار بار چھوڑتا ہوں پھر بار بار ہوجاتا ہے، بیچ بیچ میں ایک ڈیڑھ سال کا وقفہ بھی گذر جاتا ہے، لیکن پھر نفس کا غلبہ ہوتا ہے اور گناہ ہوجاتا ہے، اس نے کہا میں اور کوئی گناہ نہیں کرتا ہوں یہاں تک کہ میری نظریں بھی کبھی غیر محرم پر نہیں پڑتیں لیکن یہ گناہ مجھ سے نہیں چھوٹ رہا ہے، میرے لئے دعا کیجیے، میں نے کہا آپ شادی کیوں نہیں کرلیتے؟ نوجوان نے کہا ابھی دو بڑے بھائیوں کی شادی نہیں ہوئی ہے۔ چونکہ اس نے مجھے روحانی طبیب تسلیم کرلیا تھا، لہذا میں نے بھی اس مرض کی کچھ ظاہری دوا تجویز کی، کہ تنہائی سے بچئے، زیادہ سے زیادہ روزے رکھئے، اسنے کہا حضرت میں روزے سے تھا، پھر میں نے کہا علماء کے بیانات سنا کیجئے، اس نے کہا جی میں مفتی طارق مسعود، مولانا سجاد صاحب نعمانی وغیرہ کے بیانات بھی سنتا ہوں، اور پیر ذوالفقار نقشبندی کی کتاب "بے داغ جوانی” کا مطالعہ بھی کرچکا ہوں، میں نے بہت کوششیں کی ہیں، لیکن یہ گناہ نہیں چھوٹ رہا ہے ۔۔۔۔
اگر معاشرہ پر نظر دوڑائی جائے تو یہ صرف کسی ایک نوجوان کی سرگذشت نہیں بلکہ سیکڑوں نوجوان اس گناہ میں مبتلا ہیں، اور شہوت رانی کررہے ہیں، اگر اس گناہ کو چھوڑنا چاہتے ہیں تو بھی اسکی لت لگ جانے کے بعد خلاصی کی کوئی سبیل نہیں نکل پاتی، یقیناً اس گناہ کا وبال ان نوجوانوں کے سر ہوگا، ازدواجی زندگی انکی تباہی کی طرف جائے گی، اور اگر توبہ کی توفیق نہ ملی تو جہنم کا عذاب بھی انہیں کو چکھنا ہوگا، لیکن صرف نوجوانوں پر لعن طعن کرکے ہاتھ جھاڑ لینا کس حد تک درست ہوگا؟، کیا اس گناہ کی اصل وجہ وقت پر نکاح کا نہ ہونا نہیں ہے ؟ اور بقول مفتی طارق مسعود صاحب کہ ” اسکا علاج صرف نکاح ہے” کیا والدین پر یہ ذمہ داری عائد نہیں ہوتی کہ بالغ ہونے کے بعد بغیر کسی تاخیر وہ بچوں کی شادیاں کردیں، مسلم معاشرے کے فساد اور نوجوانوں کی زندگیوں کے داغدار ہونے کے ذمدار اصلا والدین ہیں جو لاپرواہی کی زندگی بسر کررہے ہیں، انہیں یہ فکر دامن گیر نہیں ہوتی کہ انکی اولادیں کس رخ پر جارہی ہیں اور اس کے پیچھے کیا اسباب ہیں؟ واقعہ یہ ہے کہ اس گناہ میں مبتلا ہو کر سیکڑوں نوجوانوں کی جوانیاں تباہ ہورہی ہیں، اگر وقت رہتے فکر نہ کی گئی اور نوجوانوں کی شادیوں میں تاخیر سے کام لیا گیا تو بے شمار نوجوان وجوانی ہی میں بوڑھے ہوجائیں گے اور معاشرہ کو تباہی سے کوئی نہ بچاسکے گا۔حضور صلى الله عليه وسلم نے فرمایا:”اے علی رضى الله عنه! تین کام ہیں جن میں جلدی کرنا چاہئے۔ ایک نماز جب اس کا وقت آجائے۔ دوسرے جنازہ جب کہ وہ تیار ہوجائے۔ تیسرے بن بیاہی عورت کا نکاح جب کہ اس کا مناسب رشتہ مل جائے۔“ (ترمذی۔ حاکم)
حدیث شریف میں آیا ہے جس کا مفہوم یہ ہے کہ لڑکا لڑکی جب بالغ ہو جائیں اور ان کا جوڑا مل جائے تو شادی میں تاخیر نہ کرنی چاہئے بلکہ جلد سے جلد نکاح کردینا چاہئے اور اپنے فریضہ سے ماں باپ کو سبکدوش ہو جانا چاہئے۔ لڑکے اور لڑکی دونوں شریعت اسلام میں ۱۵/ سال کی عمر کے بعد بالغ ہوجاتے ہیں۔ بہرحال بالغ ہونے کے بعد جلد ہی نکاح کردینا چاہئے۔(فتویٰ دارالافتاء دارالعلوم دیوبند)
حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ کا چودہ سال کی عمر میں نکاح ہوگیا تھا، اور امیر تبلیغی جماعت حضرت مولانا محمد یوسف صاحب کاندھلوی کا نکاح انیس سال کی عمر میں شیخ زکریا ؒ نے اپنی صاحبزادی سے کردیا تھا۔
یقیناً نکاح میں تاخیر بعض وجوہات کی بنا پر ہوتی ہیں لیکن وہ وجوہات اس سے زیادہ اہم نہیں ہیں کہ نوجوان کی بے راہ روی اور شہوت رانی سے نظریں پھیر لی جائیں اور اسکی طرف توجہ نہ دی جائے، ان وجوہات کا حل تلاش کریں تو حل نکل آسکتا ہے، لہٰذا والدین کو جلد شادی کی فکر کرنی چاہیے، زیادہ دنوں تک اولاد کو آزاد نہیں چھوڑنا چاھئے۔