ازقلم(مولانا) عبدالحفیظ اسلامی
سینئر کالم نگار و آزاد صحافی، حیدرآباد
اس سورت کا نام ’’قص‘‘ اس کی آیت کریمہ ۲۵ وقصص علیہ القصص سے ماخوذ ہے۔ لغت کے اعتبار سے دیکھا جائے تو قصص کے معنی ترتیب وار واقعات بیان کرنے کے ہیں۔ اس کے مطالعہ سے یہ بات ہمارے سامنے آتی ہے کہ اس کا نام سورہ قصص اس لئے رکھا گیا ہے کہ اس میں حضرت موسیٰ ں کے واقعات تفصیل کے ساتھ آئے ہیں۔ گزشتہ مضمون میں یہ بات آچکی ہے کہ سورہ شعراء اور نمل کے علاوہ سورہ قصص، یہ سورتیں ایسی ہیں جو یکے بعد دیگرے نازل ہوئی ہیں اور مذکورہ بالا سورۃ بھی نبی کریم سرکار دو عالم اکی مکی حیات طیبہ کے وسطی عہد میں نازل شدہ سورۃ ہے۔
تفسیر ابن عباس صسے ہمیں یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ پوری سورۃ مکی ہے۔ سوائے اس آیت ۔ اِنَّ الَّذِیْ فَرَضَ عَلَیْکَ الْقُرْآنَ … (الخ) کیونکہ یہ آیت مکہ و مدینہ کے درمیان مقام حجفہ میں نازل ہوئی ہے۔ غرضیکہ سورۃ شعراء ، نمل اور قصص اگر ان تینوں کو ملاکر پڑھا جائے تو حضرت موسیٰ ں کا قصہ مکمل طور پر سامنے آجاتا ہے۔ جہاں تک اس سورۃ کے موضوعات کا تعلق ہے وہ یہ کہ کفار و مشرکین کے شبہات و اعتراضات کو رفع کرنا ہے جو حضرت محمد رسول اللہ ا کی رسالت حق پر وارد کرتے چلے جارہے تھے۔ ان عذرات کو قطع کرنا ہے جو حضرت محمد مصطفی ا پر ایمان نہ لانے کیلئے (منکرین حق) کی جانب سے پیش کئے گئے تھے۔
غرضیکہ ان غیر حقیقی افکار و خیالات کے سدباب کے لئے حضرت موسیٰ ںکا قصہ بیان فرمایا گیا تاکہ زمانہ نزول کے حالات سے مل کر خود بخود چند حقائق کے ذہنوں میں بیٹھ جائے۔ اس سلسلہ میں مولانا آزاد نے تحریر فرمایا ہے کہ اس سورت کا محور ، حق و باطل اور خدا پرستوں اور شیطان کے حامیوں کے درمیان کشمکش ہے۔
اس سلسلہ میں دو قصے بیان کئے گئے ہیں۔ پہلا قصہ اقتدار و طاقت کی سرکشی کا ہے۔ جسکی نمائندگی فرعون کرتا ہے جس نے بنی اسرائیل کو سخت عذاب سے دوچار کر رکھا تھا۔ ان کے بیٹوں کو مروا ڈالتا اور عورتوں کو (لونڈیا بنانے کیلئے) زندہ رکھتا۔ اس کی سرکشی یہاں تک بڑھی کہ خدائی کا دعویٰ کرنے لگا۔
دوسرا قصہ مال و دولت کی سرکشی کا ہے جس کی نمائندگی قارون کرتا ہے۔ ان دونوں قصوں سے واضح ہوتا ہے کہ اس دنیاوی زندگی میں انسان مال و دولت اور جاہ و اقدار پاکر سرکشیاں کرنے لگتا ہے۔ (تلخیص ترجمان القرآن صفحہ ۵۰۴)
اس سلسلے میں مزید یہ روشنی ڈالی گئی ہے جس کے اقتباسات درج ذیل ہیں ’’جس بچے کے ہاتھوں آخرکار فرعون کا تختہ اُلٹنا تھا اسے اللہ تعالیٰ نے فرعون ہی کے گھر میں اس کے اپنے ہاتھوں پرورش کروایا اور فرعون یہ جان نہ سکا کہ وہ کسے پرورش کررہا ہے۔ (دوسرے یہ کہ نبوت جب کسی کو دی جاتی ہے) کسی بڑے جشن اور زمین و آسمان سے کسی بھاری اعلان کے ساتھ نہیں دی جاتی۔ تم کو حیرت ہے کہ حضرت محمد مصطفی (ا) کو چپکے سے یہ نبوت کہاں سے مل گئی اور بیٹھے بٹھائے یہ نبی کیسے بن گئے مگر موسیٰ (ں) کا تم خود حوالہ دیتے ہو کہ لَوْلَا اُوْتِیَ مِثْلَ مَا اُوْتِیَ مُوْسٰی(آیت ۴۸) انھیں بھی اسی طرح راہ چلتے نبوت مل گئی … موسیٰ ںخود ایک لمحے پہلے تک نہ جانتے تھے کہ انھیں کیا چیز ملنے والی ہے کہ ’’آگ لینے کو جائیں پیمبری مل جائے‘‘۔
تیسرے یہ کہ جو نسبت آج تم اپنے اور محمد (ا) کے درمیان پارہے ہو اس سے بہت زیادہ فرق موسیٰ (ں) اور فرعون کی طاقت کے درمیان تھا مگر دیکھ لو کہ آخر کون جیتا اور کون ہارا۔
چوتھے یہ کہ تم لوگ بار بار موسیٰ ںکا حوالہ دیتے ہوئے کہ ’’محمد (ا) کو وہ کچھ کیوں نہ دیا گیا جو موسیٰ کو دیا گیا تھا‘‘ یعنی ید بیضا اور دوسرے کھلے کھلے معجزے۔ مگر تمہیں کچھ معلوم بھی ہے کہ جن لوگوں کو معجزے دکھائے گئے تھے اُنھوں نے کیا کیا تھا ؟
وہ انھیں دیکھ کر بھی ایمان نہ لائے۔ اُنھوں نے کہا کہ یہ جادو ہے کیونکہ وہ حق کے خلاف ہٹ دھرمی اور عناد میں مبتلا تھے۔ اسی مرض میںآج تم مبتلا ہو۔
پھر تمہیں کچھ یہ بھی خبر ہے کہ جن لوگوں نے وہ معجزے دیکھ کر حق کا انکار کیا تھا ان کا انجام کیا ہوا ؟ آخرکار اللہ نے انھیں تباہ کرکے چھوڑا۔ اب کیا تم بھی ہٹ دھرمی کے ساتھ معجزے مانگ کر اپنی شامت بلانا چاہتے ہو؟ (تفہیم القرآن)
یہ واقعات اور اس میں جو بناتیں بیان فرمائی گئی ہیں یہ وہ چیزیں ہیں جو مکہ کے اس کافرانہ فضاء میں جوبھی سنتا اس کے ذہن نشین ہوجاتی ، کیونکہ حضرت محمد مصطفی ا اور کفار مکہ کے درمیان جو کشمکش برپا تھی ٹھیک اسی انداز کی کشمکش حضرت موسیٰ ںاور دشمن خدا ’’فرعون‘‘ کے درمیان برپا تھی۔ غرضیکہ ان قصوں کو سنانے کا مقصد یہ ہے کہ مشرکین مکہ نبی مکرم ا کی دعوت کے مقابلہ میں جس طرح کا غلط طرز عمل اختیار کرچکے تھے، ان قصوں میں جہاں عبرت کا سامان ہے وہیں پر بغیر کسی تصریح دل نشین انداز میں بات کو اللہ تبارک و تعالیٰ نے مکمل طور پر ارشاد فرمادیا تاکہ مشرکین مکہ اپنے باطل افکار و خیالات میں ایک صالح تبدیلی لاتے ہوئے حضرت نبی مکرم ا کی رسالت کو حق جانیں اور آپ کی دعوت کو قبول کرلیں۔ نبی مکرم ا کی رسالت کے ثبوت میں ایک اور عقلی دلیل دی جاتی ہے کہ آپ ا اُمی ہونے کے باوجود دو ہزار برس پہلے ہوچکے ایک تاریخی واقعہ کو اپنی آنکھوں دیکھے واقعہ کی طرح من و عن سنارہے ہیں، حالانکہ آپ کے قریب رہنے والے (آپ کی ولادت باسعادت سے لے کرآپ کے نبوت کا تاج پہننے تک) سب لوگ جانتے تھے کہ آپ ا کے پاس معلومات ظاہری کا ایسا ذریعہ نہیں ہے۔ تو اب یہ بات لازم آتی ہے کہ نبی ا کی رسالت حق ہے اور آپ ا جو کچھ واقعات سنارہے ہیں اس کا واحد منبع و سرچشمہ اللہ تبارک و تعالیٰ کا کلام ہے جو رسول اکرم نبی محترم آخرالزماں اکے قلب اطہر پر نازل ک
یا گیا ہے۔
اس سورت کے آخر حصہ میں منکرین حق کے اس اصل عذر کو لیا گیا ہے جو آنحضور ا کی دعوت کو نہ ماننے کے لئے وہ پیش کرتے تھے یعنی اگر ہم (اہل عرب) شرک والے طریقہ کو چھوڑ کر ’’دین توحید‘‘ کو اختیار کرلیں تو ہماری ساری اجارہ داریاں ختم ہوجائیں گی۔ سرور عالم ا کی دعوت کو نہ ماننے کا اصل محرک یہی تھا۔ سرداران قریش کی حق سے دشمنی کا سبب تھا صرف یہی کہ انھیں اپنی چودھراہٹ کا اپنے ہاتھ سے نکل جانے کا اندیشہ لاحق تھا ورنہ ان کے سارے شبہات و اعتراضات تو محض عوام کو گمراہ کرنے کیلئے اور انھیں دھوکہ دینے کے لئے گھڑے جاتے تھے۔اس سلسلہ میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس طرح ان کی فکر کے ایک ایک پہلو پر بیان فرماتے ہوئے نہایت ہی حکیمانہ اندازسے ان کی اس بنیادی بیماری کا مداوا کیا کیونکہ سرداران قریش کے سامنے باطل کے مقابل حق کی اہمیت نہیں تھی۔ وہ اپنا ہر فیصلہ دنیوی نفع اور اس کی طلبی کے نقطۂ نظر سے کرتے تھے۔
حضرت مولانا پیر کرم شاہ ازھریؒ اس سورۃ کی آیت ۵۷ کی طرف قارئین کی توجہ مبذول کرواتے ہوئے لمحہ فکر دیا ہے۔ وہ تحریر فرماتے ہیں کہ …
’’اسلام کے نظام معاشیات ، اسلام کے نظام قانون ، اسلام کے نظام اخلاق کو اپنے ملک میں رائج کرنے سے ہمارے کوتاہ نظر اعیان حکومت کو جو خدشے اور خطرے دکھائی دیئے ہیں انکا ازالہ فرمادیا۔ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ اگر بیسویں صدی میں ہمنے ۱۴۰۰ سالہ پرانا نظام جاری کردیا تو دنیا کی ترقی یافتہ قومیں ہم سے آنکھیں پھیر لیںگی اور ہم تنہا رہ جائینگے‘‘۔
اس آیت میں غور کرنے سے غلط فہمیاں کافور ہوجائیں گی۔ انشاء اللہ تعالیٰ