تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی، نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ
ہندوستانی مسلمان تاریخ کے بد ترین دور سے گذر رہے ہیں، ان کی جان ومال ، عزت وآبرو پر حملے اس کثرت سے ہونے لگے ہیں کہ یقین ہی نہیں آتا کہ یہ وہی ملک ہے، جہاں سارے مذاہب کے لوگوں کو یکساں حقوق دیے گیے تھے اور مختلف مذاہب وتہذیب کے لوگ جہاں شیر وشکر ہو کر رہتے تھے، ایک دوسرے کے دکھ درد کے شریک اور ایک دوسرے کی خوشیوں سے خوش ہوا کرتے تھے، زمانہ بدلا، وہ لوگ چلے گیے ، جنہوں نے اس ملک کو انگریزوں سے آزاد کرانے کے لیے ہر طرح کی قربانی دی تھی اور زندگی کا بڑا حصہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے گذار دیا تھا ، انہوں نے صرف ایک خواب دیکھا تھا کہ اس ملک میں ذات، برادری ، مذہب او رعلاقائیت کی بنیاد پر کوئی تفریق نہیں ہوگی، یہاں کی گنگا جمنی تہذیب میں ہر مکتب فکر اور مذاہب کے لیے آزادی ہوگی، یہ وہ ملک تھا جسے جنت نشان اور سارے جہاں سے اچھا کہا جاتا تھا۔
زمانہ بدلا ، حالات نے کروٹ لی ، پارٹیوں کے نظریات تبدیل ہوئے او راقلیتوں پر مسائل ومصائب کے پہاڑ توڑے جانے لگے ، دھیرے دھیرے انہیں خصوصا مسلمانوں کو اس سطح پر لا کھڑا کیا گیا کہ وہ ہریجن اوردلتوں سے بھی نیچے چلے گیے، ہریجن اور دلتوں کو اوپر اٹھا نے کے لیے انہیں رزرویشن دیا گیا تھا ، مسلمان کو اس سے بھی محروم رکھا گیا ، تمام وہ برادریاں جو دوسرے مذاہب کی ہیں اور معاشی طور پرپس ماندہ ہیں، ان کو رزرویشن کا فائدہ ملا، لیکن وہی کام کرنے والا مسلمان اس سے محروم کر دیے گئے، صرف اس لیے کہ وہ محمد رسول اللہ کا کلمہ پڑھتے ہیں، اور اسلام میں برادری کا وہ تصور نہیں ہے جو دوسرے مذاہب میں پایا جاتا ہے ۔مسلمانوں کے اس سطح تک پہونچ جانے کے بعد دستور میں دیے گیے حقوق سے انہیں محروم کرنے کی سازش رچی گئی ، مختلف بہانوں سے انہیں ملازمتوں سے دور رکھا گیا ، ان کی مسجدوں پر حملے کیے گئے ، بابری مسجد توڑ دی گئی،اور عدالت نے غیر مسلموں کے حوالہ اس کی زمین کر دیا،ائمہ ومؤذن کو شہید کیا گیا، ہجومی تشدد کے ذریعہ کبھی لو جہاد ، کبھی گئو کشی اور کبھی بغیر کسی سبب کے مسلمانوں کو قتل کرنے کا سلسلہ دراز ہوا ، تعلیمی نظام کے بھگوا کرن کی تحریک چلائی گئی ، بعض ریاستوں میں یوگا اورسورج نمسکار کو اسکولوں میں لازم قرار دیا گیا ،اذان پر پابندی کی بات کی گئی اور مساجد سے مائک کے استعمال تک کے لیے پر میشن اور اجازت لینے کا حکم جاری کیا گیا، ہماری مذہبی شناخت چھین لینے کی مسلسل اور منظم کوشش اب بھی جاری ہے ، کبھی ڈاڑھی منڈوانے کا حکم دیا جا رہا ہے ، کبھی نقاب اور حجاب پر سوالات اٹھائے جا رہے، طلاق کے نظام کو ختم کیا جا رہا ہے، ان لوگوں کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جنہوں نے مذہب کا قلادہ اپنی گردن سے اتار پھینکا ہے ، اس طرح اب مسلمانوں کو ان حالات کا سامنا ہے، جس میں ان کے دینی عقائد ونظریات پر ضرب لگائی جا رہی ہے او ریہ سب کچھ حکومت کی نگرانی اور سایے میں ہو رہا ہے،اس طرح دین اسلام کو دیش نکالا دینے کی تحریک زوروں پر چل رہی ہے، اور کہا جا رہا ہے کہ مسلمانوں کو ہندوستان چھوڑدینا چاہیے ، ان کی جگہ قبرستان یا پاکستان ہے۔ ان حالات میں ضروری ہے کہ مسلمان ہندوستان میں اکابر امت کے مشورہ سے ایسی جد وجہد اور تحریک کا آغاز کریں جس سے حکومتی سطح سے دین میں کی جانے والی مداخلت کا سد باب کیا جا سکے، اور بتایا جا ئے کہ مسلمان یہاں کی دوسری بڑی اکثریت ہے، اس لیے دستور میں اسے جو تحفظات دیے گیے ہیں ، اس کو ختم نہیں کیا جاسکتا اور اس کام کے لیے ہم ہر طرح کی قربانی دینے کو تیار ہیں۔
یہاں پر یہ بات بھی یاد رکھنے کی ہے کہ دین بچانے کے لیے حکمرانوں کے فیصلے کی مخالفت کے ساتھ ، دین کو اپنی زندگی میں اتارنے کی بھی ضرورت ہے، دین بچانے اور اس کے تحفظ کے لیے پہلا کام خود کرنے کا ہے اور وہ ہے کہ ہم بد عملی اور بے عملی سے دور رہیں، اسلام نے جن کاموں کے کرنے کا حکم دیا ہے، اسے بجالائیں، جن کا موں سے روکا ہے، اس سے رک جائیں ، ہرپل ہمیں اس کا خیال رہے کہ ہماری نگرانی ہو رہی ہے، اللہ دیکھ رہا ہے ، اور اگر ہم نے دین سے دوری اختیار کی تو اس کی سزا ہمیں ملے گی ،یہ احساس جس قدر غالب ہوگا، دین ہمارے کیرکٹر، کردار، اعمال وافعال میں محفوظ ہوجائے گا، جب ذاتی زندگی میں ہم شریعت پر عمل پیرا ہوں گے تو ہمیں نئی طاقت وتوانائی ملے گی اور دین میں مداخلت کرنے والوں کے خلاف ہمارے جذبے اور حوصلے جواں ہوں گے اور بقول علامہ اقبال ؎
جوانو! یہ صدائیں آ رہی ہیں آبشاروں سے
چٹانیں چو رہو جائیں جو ہو عزم سفر پیدا