آئین و مذہب کے خلاف کوئی بھی اقدام جرم ہوتا ہے

ازقلم: محمد قاسم ٹانڈؔوی
09319019005

دین و مذہب کے اعتبار سے ہم مسلمان ہیں اور شہریت و وطنیت کے لحاظ سے ہم ہندوستانی ہیں۔ اور یہ دونوں چیزیں ہیں عزیز از جان ہیں، یعنی جب معاملہ دین و مذہب پر عمل آواری اور سلامتی کا آجائے تو اس وقت ہم خود خالص مسلمان بنانا اور کہلانا پسند کرتے ہیں اور جب کوئی مسئلہ وطن و شہریت پر آنچ آنے یا اس کے امن و سلامتی کو درپیش آ جائے تو پھر اس وقت ہم خالص ہندوستانی بن کر سینہ سپر ہو جانا اور ملک پر آئی کسی بھی آفت و مصیبت کو ٹالنے میں خود کو فنا کرنا اپنا دینی اور وطنی فرض سمجھتے ہیں اور "حب الوطن من الایمان” گرچہ یہ حدیث تو نہیں ہے؛ مگر کسی صاحب علم و دانش کا جامع مقولہ ہونے کی وجہ سے وطن کی الفت و محبت میں اس کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنانا خود کی خوش قسمتی تصور کرتے ہیں۔
جیسے ہمیں ہمارے مذہب نے پابند شرع کیا ہے اور زندگی کو مکمل طور پر اسلامی رنگ و ڈھنگ میں ڈھال کر گزارنے کا مکلف بنایا ہے، اسی لیے مذہب کی طرف سے ہر موقع پر ہمیں جامع راہنما اصول دئے گئے ہیں، ویسے ہی ہمارے ملک نے اپنے شہریوں کو پابند آئین کیا ہے اور یہاں کی تہذیب و تمدن اور کثیرالجہات جو مقاصد ہیں، ان سے منتفع ہونے کےلیے ہر ایک کو اسباب و مواقع عطا کئے ہیں۔ چنانچہ جو لوگ مثبت و مفید انداز میں وسائل کا استعمال کرتے ہوئے یہاں پر پوشیدہ ذخائر اور قیمتی معدنیات سے فائدہ اٹھانا چاہتے ہیں، ان کو چاہئے کہ اپنی چھپی صلاحیتوں کو بروئےکار لاتے ہوئے جہاں چاہیں ملک میں بود و باش کریں اور قانون کی پاسداری کرتے ہوئے ان سے فائدہ اٹھائیں؛ کیونکہ ہمارے اس ملک کی اصل خوبصورتی یہاں کے آئین و دستور کا بلاتفریق مذہب و ملت نافذ ہونا اور ہر ایک کو اس کے احترام کرنے میں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اگر کوئی ایمان والا اپنے مذہب کے خلاف عمل کرتا ہے تو وہ شرعی اعتبار سے اللہ کے نزدیک باغی و سرکش ٹھہرایا جاتا ہے، ٹھیک ویسے ہی اگر کوئی ملک میں رہتے ہوئے اس کے آئین اور یہاں کی امن و سلامتی پر مشتمل دستاویز کے خلاف کوئی اقدام کرتا ہے تو وہ حکومت و عدالت کی نگاہ میں قانونی طور پر مجرم و گناہ گار ٹھہرایا جاتا ہے اور وہ سزا کا حق دار ہوتا ہے۔
کسی بھی فلاحی ریاست اور ترقی یافتہ مملکت کا اصل راز انہیں دو اصولوں میں پنہاں ہوتا ہے کہ: مملکت و ریاست اپنے شہریوں کے ساتھ کس رویہ اور انداز سے پیش آ رہی ہیں؛ ان کے عدل و انصاف کا پیمانہ سبھی طبقات و خاندان کے ساتھ مساویانہ و ہمدردانہ ہے یا تفریق و تقسیم کا شکار ہے؟ قانون کا نفاذ آیا کسی ایک مذہب کے ماننے والوں اور ملت کی شناخت پر ہو رہا ہے یا بلا تفریق مذہب و ملت قانون کی بالادستی ہو رہی ہے؟ سرکاری اسکیمیں اور مراعات سے یکجا طور پر لوگ شیر و شکر ہو رہے ہیں یا جداگانہ طور پہ لوگ ان سے مستفید و مستفیض ہو رہے ہیں؟ یہ وہ نکات و پوائنٹس ہیں جن سے ملک و ملت کی خوشحالی اور ترقی وابستہ ہے اور جن کو اختیار کئے بغیر اور عمل میں لائے بغیر کوئی بھی ملک اور اس میں رہائش پذیر وہاں کے باشندے خوشحالی اور ترقی کا منھ نہیں دیکھ سکتے۔ اگر ملک و ملت کی خیرخواہی عزیز و محبوب ہے، اگر ہمیں اپنے ملک کی سلامتی اور اس کے وقار کو چار چاند لگانے ہیں، اگر اس ملک کی برسوں پرانی روایات و اقدار سے اگلی نسلوں کو ویسے ہی آگاہ و باخبر رکھنا ہے، جیسے ہم باخبر ہوتے آرہے ہیں اور سب سے اہم بات؛ بلکہ آج کی تحریر کا جو اصل خلاصہ اور منشاء ہے وہ یہی ہےکہ: "ہم سب کو اپنے اس ملک کے امن و امان کو برقرار رکھنے اور یہاں کے ہندو مسلم اتحاد کو پروان چھڑانے کی کوشش تیز سے تیز تر کرنے کی فکر کرنی چاہیے، کیوں کہ یہی دونوں چیزیں اس ملک کی اصل اساس و اثاثہ ہیں، چنانچہ جب تک ہمارے اس عظیم ملک میں قومی امن و امان اور باہمی اتحاد و اتفاق قائم ہیں، ملک ترقی و خوشحالی کی طرف رواں دواں رہےگا اور جس دن ملک سے یہ دونوں چیزیں مفقود و معدوم ہو جائیں گی؛ اسی دن ہمارا یہ ملک انتشار و انارکی کا شکار ہو جائےگا اور ملک و ملت کا شیرازہ پارہ پارہ ہو جائےگا۔
جرم و گناہ چاہے جس مذہب و ملت سے وابستہ شخص سے کر ہو رہا ہو اور چاہے جس پلیٹ فارم سے آئینی اصولوں کی خلاف ورزی کی جا رہی ہو؛ بغیر کسی بھید بھاؤ اور بغیر کسی تفریق و امتیاز کے مجرمین و خطاکاروں کے ساتھ قانون کے تحت کارروائی ہونی چاہیے اور انہیں ان کے انجام تک پہنچانا چاہئے۔ دوران تحقیق یا دوران سزا بھید بھاؤ سے کام لینا یا مذہب و ملت کی شناخت قائم کرکے سزاؤں کا اطلاق کرنا، یہ خود ایک بڑا جرم ہے، جس سے پوری دنیا میں منفی پیغام جاتا ہے۔
واقعہ راجستھان کے ادےپور شہر سے مربوط ہو؛ جہاں ناموس رسالتؐ کے نام پر دو مسلم نوجوانوں کے ذریعہ کنہیا لال کا قتل انجام دیا گیا یا اس سے پہلے ملک بھر میں متعدد جگہ لو جہاد اور گؤکشی کے اندیشہ میں بہت سے مسلم افراد اور دیگر اقلیتی طبقے سے تعلق رکھنے والوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا ہو اور ان کی موب لنچنگ کی گئی ہو۔ ایسے تمام کیسز سے تعلق رکھنے والوں کو ایک ہی کیٹیگری اور ایک ہی دفعہ کے تحت سزا ہونی چاہئے۔ مگر ہمارے ملک میں ایسا ہو نہیں رہا، جس کی وجہ سے سماجی سطح پر نفرت و تشدد میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور دن بہ دن باہمی پیار و محبت اور آپسی الفت و انسیت میں کمی واقع ہوتی جا رہی ہے۔ کیونکہ غلطی اگر اکثریتی طبقے سے تعلق رکھنے والا کرے تو اس کے جان و مال کا تحفظ تو سرکار کی سرپرستی میں انجام پاتا ہے اور اگر اسی نوعیت کی غلطی غیراکثریتی طبقے سے وابستہ شخص کرتا ہے تو اسے پھانسی کے پھندے پر لٹکانے کےلیے پوری مشنری متحرک اور حکومتی ادارے فورا کمربستہ ہو جاتے ہیں۔ یہ ع دل و انصاف کا مساویانہ پیمانہ اور ملک و ملت کے تمام افراد کے ساتھ باہمی محبت و ہمدردی کا یکساں سلوک نہیں ہے، اس سے تو انتشار و اختلاف کی کھائی مزید گہری اور الفت و محبت کی وادی مزید پیچیدہ ہوتی ہے۔ ہمارے حکمرانوں اور حکومت سے وابستہ اداروں و افراد کو اس بات کا خصوصی خیال و لحاظ رکھنے کی شدید ضرورت ہے کہ کہیں بھی انصاف کا پیمانہ متزلزل نہ ہو اور کوئی بھی بےقصور غیر انسانی حرکت کا شکار نہ ہو۔