ازقلم: سلمان عبدالصمد
9810318692
”ذہن ذاد” توصیف بریلوی کے افسانوں کا مجموعہ ہے جس میں ہم اُن کی ذہانت، فنی مشق ومزاولت، ساتھ ہی عصری حسیت کو محسوس کرسکتے ہیں۔شہر کی کربناکی اور ہوسناکی کو انھوں نے جس انداز سے تخلیقی پیراہن عطا کیا وہ قابل تحسین ہے۔ان کے افسانہ ”پزابوائے” میں در اصل ایک ایسے سماج کو پیش کیا گیا ہے جس میں رشتے کی پاس داری سے کہیں زیادہ جسمانی آسودگی کا مسئلہ اہمیت رکھتا ہے۔یہ افسانہ موضوعاتی تناظر میں گرچہ قابل التفات نہیں۔ کیوں کہ سجاد ظہیر،عصمت چغتائی، شموئل احمد اور عزیز برنی وغیرہ نے ”دلاری”،”ضدی”،” برف میں آگ”،”بیوٹی کن” جیسے افسانوں میں جنسی ناآسودگی کی قابل قدر جھلکیاں پیش کیں اور نفسیاتی سروکار کا بہترین نمونہ ہمارے سامنے رکھا تاہم اس قدیم برتاؤ سے توصیف بریلوی کا یہ افسانہ قدرے مختلف ہے بلکہ یوں کہیں کہ توانھوں نے اُسی نفسیاتی پہلو کو اکیسویں صدی کی المنا کیوں سے جوڑ دیا ہے۔فن کاری دراصل یہی تو ہے کہ قدیم رویوں کو جدت آشنا کردیا جائے۔ دوسری بات یہ ہے کہ نفسیاتی جبلت میں اکثر تبدیلی واقع نہیں ہوتی۔یہ الگ بات ہے کہ سماجی حالات کی وجہ سے کبھی کبھی فطرتِ انسانی کے اظہار میں جدت پیدا ہوتی رہتی ہے۔گویا توصیف بریلوی نے اپنے اس افسانے میں انسانی جبلت اور جنسی نا آسودگی کو اپنے زمانے سے ہم آہنگ کردیا جو ایک فن کاری ہے۔
پیش نظر مجموعہ ”ذہن زاد” کا پہلا افسانہ ”جیلر” ایک بہترین علامتی افسانہ ہے۔ در اصل یہاں جیلر کو ایک محبوب کی علامت کے طور پر استعمال کیا گیا۔ قیدیوں سے مراد معشوقائیں ہیں۔ان علامتوں میں افسانہ نگار نے جہاں ذہنی پیچیدگیوں کا تجزیہ کیا،وہیں مروجہ عشق پر کتابی عشق کو ترجیح دینے کی بے مثال کوشش کی ہے۔البتہ جیلر کا متضاد رویہ کبھی کبھی کہانی کی تفہیم میں پریشان کرتا ہے۔ عشقیہ کیفیت سے جو بیتابی پیدا ہوتی ہے شاید اسی کا فلسفیانہ اظہار،یہ افسانہ ہے۔
اگر افسانہ” ذہن زاد”کی بات کریں تو معلوم ہوگا کہ اس میں سماجی بندشوں نے مقدس جذبات کا سخت امتحان لیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ ایک فرد بیوی کی غیر موجودگی میں اپنے بچوں کی پرورش کرتا ہے اور بچے والد سے اپنی ماں کے متعلق دریافت کرتے ہیں مگر والد مبہم انداز میں گفتگو کرتے ہیں کہ سماجی رسومات کے منفی پہلو سامنے آجاتے ہیں۔ اس افسانے میں جدت کچھ یوں ہے کہ عموماً نا جائز تعلقات سے پیدا ہونے والے بچے بڑے ہو کر اپنی ماں سے اپنے باپ کے متعلق پوچھتے ہیں مگر توصیف بریلوی نے والد کے پاس ایسے بچوں کو جمع کردیا جو ان سے اپنی ماں کے متعلق پوچھ رہے ہیں۔اس کے علاوہ افسانہ ” سفید وسرخ” بھی اس مجموعے کے بہترین افسانوں میں ایک ہے۔اس میں در اصل سچے عشقیہ جذبات والدین کی حرص وطمع کی قربان گاہ میں شہید ہوجاتے ہیں۔آج کا المیہ یہ ہے کہ بہت سے والدین بیٹیوں کے لیے خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہتے ہیں اور بعض اوقات اخلاقیات کو نظر انداز کر کے جھوٹی شہرت اور وقتی وجاہت کے سامنے جھک جاتے ہیں اور غیر مناسب مرد سے اپنی بیٹی کی شادی کرادیتے ہیں۔ اس طرح لڑکیوں کی زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ توصیف بریلوی نے بڑے سلیقے سے اس پہلو پر تیکھا طنز کیا ہے۔ ظاہر ہے اس مختصر تبصرے میں مجموعے کے تمام افسانوں کا تجزیہ ممکن نہیں۔ اس لیے مختصر یہ کہا جا ئے کہ اس مجموعے میں عشق کے متعدد رنگ ملتے ہیں۔ انھوں نے عشق کو ہوسناکی سے محفوظ رکھنے کی ماہرانہ کوشش کی ہے۔
”ذہن زاد” میں بیس افسانے شامل اشاعت ہیں۔موضوعاتی اعتبار سے یہ تمام تر افسانے باہم مختلف ومنفرد ہیں۔ توصیف بریلوی کے افسانوں میں ڈرامائی انداز نہیں ہے اور نہ ہی ان کے یہاں ڈراموں کی طرح مکالموں کی کثرت ہے۔اردو فکشن کا یہ بھی المیہ ہے کہ صفحات کی تعداد میں اضافے کے لیے بہت سے تخلیق کار مکالمے زیادہ پیش کرتے ہیں۔ جب کہ بیا نیہ والی اصناف میں بے جا مکالموں سے اجتناب ضروری ہے۔تو صیف بریلوی نے نہ جانے شعوری یا غیر شعوری طور پر کم مکالموں کا استعمال کیا ہے جو ان کی ایک انفرادیت ہے۔اسی طرح ان کی نثر شاعرانہ علتوں سے پاک ہے۔یہی وجہ ہے کہ ان کے افسانوں میں بھاری بھرکم تشبیہات واستعارات اور ثقیل وادق الفاظ انتہائی کم ہیں۔توصیف کے افسانوں کی قرأت کے دوران کبھی کبھی ہمیں پیغام آفاقی کی یاد آتی ہے۔کیوں کہ وہ بھاری بھرکم لفظوں اور دور ازکار تشبیہات کی بنیاد پر اپنی فن کاری ثابت کرنے کی کوشش نہیں کرتے تھے۔تو صیف کے یہاں بھی ایسی قابل تحسین کوشش نظر آتی ہے۔پیغام آفاقی نے سیدھے سادھے لفظوں میں زندگی کا جو پر پیچ فلسفہ پیش کیا ویسا فلسفہ بہت سے مستند تخلیق کاروں کے یہاں نظر نہیں آتا ہے۔ظاہر ہے کہ توصیف بریلوی کی عمر فلسفہ طرازی کی ہے اور نہ ہی ان کے افسانے اس کے متقاضی ہیں۔ اس مجموعے کے دوران ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سیدھے سادھے لفظوں میں کہانی لکھ کر ہمیں سنارہے ہیں۔ حقیقت یہ کہ ہے کہ اکثر سنانے والا تصنع سے اجتناب کرتا ہے،بالکل اسی طرح تو صیف لکھتے وقت تصنع سے گریز کرتے ہیں۔ الغرض توصیف ”سلسلہ ستاریہ” کی دوسری نسل سے تعلق رکھتے ہیں۔امید کی جاسکتی ہے کہ گزرتے وقت کے ساتھ ان کے افسانوں میں مزید پختگی آئے گی اور وہ علی گڑھ سے جڑی تخلیقی روایت کو ایک نیا رخ عطا کریں گے۔