عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری(گوونڈی،ممبئی)
آج 22 ستمبر مولانا سیّد ابولاعلٰی مودودیؒ (پیدائش 25/ستمبر 1903 ۔ وفات22 ستمبر1979) کا یوم وفات ہے۔
مولانا سیّد ابولاعلٰی مودودیؒ بیسویں صدی کے نابغئہ روزگار انقلابی مفکر(Thinker), عملی مصلح( Active Reformer) , نظریہ ساز (Idealogue )زمانہ سازمدبّر (Statesman) ،متکلم، رفیع الشان مصنف، عظیم المرتبت اسلامی اسکالر ،سرگرم داعی اور صاحب عزم وثبات قائد ورہنما تھے۔
سیّد مودودیؒ کے یہاں رضائے الٰہی کے حصول، شہادت حق کے فریضہ کی بجا آوری، تزکیہ وتعمیرِ کردارکی مرکزیت، الله کی حاکمیت، دین کی اِقامت، اقتدارواختیار کے سر چشموں کو امر ربی کا طابع بنانے کےلیے دعوت وتحریک، وسیع لٹریچر جس میں اسلام کو ایک دین، نظام زندگی جو عقیدے اور عبادت کے ساتھ ساتھ قانون، ثقافت، طرز معاشرت، معیشت، سیاست عبادات و معاملات اور بین الاقوامی تعلقات کو ایک منطقی ربط کے ساتھ پیش کرتا ہے۔اسلام ایک پیغام ،دعوت اور منظّم جدوجہد ونفاذ ہے۔ جسے تحریک اسلامی کی وسیع اصطلاح سے سمجھا جا سکتا ہے ۔آپ نے دین کا ہمہ گیر اور انقلابی تصور پیش کیا۔ اسلام کو ایک فکری و تربیتی تحریک بنانے، اور عملی کام کے لیے1941 میں منظم تحریک جماعت اسلامی کی بنیاد رکھی جو ایک منظّم جماعت کی حیثیت سے 75 سالوں سے سر گرم عمل ہے۔ جو بر صغیر بھارت، پاکستان، کشمیر، بنگلہ دیش، سری لنکا میں اپنے ملک کے قوانین اوراپنی پالیسی، طریقہ کار اور قیادت و نظم میں ایک دوسرے سے بالکل آزاد ہیں ۔اس پہلو سے ان کے درمیان کوئی تنظیمی یا مالی ربط وتعلق نہیں ہے۔
یہ سب دعوت دین، تبلیغ دین، اِشاعت دین، َِاِقامت دین، تعلیم دین، خدمت دین اور احیاے دین کی جدوجہد کررہی ہیں۔تحریک اسلامی کوئی مذہبی فرقہ یا مسلک نہیں ہے۔ بلکہ اس نے سب فرقوں اور مسلکوں کو قرآن اور سنّت کی بنیاد پر متحّرک قوّت میں ڈھال دینے کی کوشش کی ہے۔
اپ نے اپنی ساٹھ سالہ تصنیفی زندگی میں100سے زائد کتابیں تصنیف فرمائیں۔جن میں تفہیم القرآن(چھے جلدیں) فکری کام کا سب سے مرکزی اور سدا بہار(ever-lasting) کارنامہ ہے۔
تفہیم الحدیث(آٹھ جلدیں)، سنت کی آئینی حیثیت، سیرت سرور عالم، الجہاد فی الاسلام ، پردہ، خطبات، تفہیمات(چار حصے)، رسائل ومسائل (سات جلدیں) ، تنقیحات ، سود، حقوق الزّوجین، رسالہء دینیات ، ضبط ولادت،اسلامی سیاست،خلافت و ملوکیت اہم تصانیف سمجھی جاتیں ہیں۔ ان کتابوں کے دنیا کی کم وبیش چالیس زبانوں میں تراجم ہوچکے ہیں، مزید تحقیق اور ریسرچاور تراجم کا کام جاری ہے۔
حاصل عمر نثار رہ یارے کردم
شادم از زندگی خویش کہ کارِ کردم
سیّد مودودیؒ کی احیای طرز فکر کے گہرے اثرات آج دنیا کے الٰہیاتی اور حرکی ادب میں پائے جاتے ہیں ۔ ان کے یہاں حرکت ہے جمود نہیں ۔اردو زبان کی کئی سو سالہ تاریخ میں سیّد مودودیؒ کو سب سے زیادہ چَھپنے والے مصنف کا اعزاز حاصل ہے۔
ہَوا ہے گو تندوتیز لیکن چراغ اپنا جلارہا ہے
وہ مرد درویش جس کو حق نے دیے ہیں اندازِ خسروانہ
مولانا مودودیؒ کی گوناگوں اور متنّوع دینی خدمات کو الله تعالیٰ نے شرف قبولیت عطا فرمایا اور بے شمار بندوں کے دلوں میں ان کی محبت اور ان کے پیش کردہ مشن کو آگے بڑھانے کی جدوجہد کی توفیق عطا کی ہے۔ عالمی سطح پر اللہ کے بے شمار بندے مولانا مودودیؒ کی تحریریں پڑھ پڑھ کر مشرف بہ اسلام ہوے نیز جو لوگ پہلے سے ہی دائرہء اسلام میں تھے ان کی مزید بہتر و بھرپور ہدایت کے لیے اللہ نے مولانا کے تصنیفی و تقریری ذخیرے کو وسیلہ بنایا۔
بدقسمتی سے مودودیؒ کو نہایت گھٹیا حریفوں سے سابقہ پڑا اور زمانے نے اس داعی کا خیر مقدم الزام تراشیوں اور تکفیر و تفسیق سے کیا۔ وہ غیروں کے بہتان الزام اور اپنوں کی بے وفائی کا زخم بھی اٹھاتے ہیں اور ارباب اقتدار کی طرف سے جیل کی کال کوٹھریاں بھی ان کے حصہ میں آتی ہے اور پھانسی کا پھندا بھی۔
یقیناََ اس تری جرات کو دنیا یاد رکھے گی
سزائے موت سن کر بھی نہ پیشانی پہ بل آیا
مولانا مودودیؒ کی اسلام کی خدمات کے عوض انھیں پہلا شاہ فیصل ایوارڈ کے اعزاز سے نوازا گیا اور اعتراف عظیمت کی گئی ۔