مولانا خورشید عالم

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ بہار اڈیشہ و جھارکھنڈ

مولانا خورشید عالم بن حافظ عبدالسبحان (م۱۹۸۵) بن محمد اسحاق بن شجاعت علی ساکن بوکھرا ضلع سیتامڑھی نے یکم شعبان ۱۴۴۳ھ مطابق ۴؍ مارچ ۲۰۲۲ء منگل دن گذار کر پونے نو بجے شب میں اس دنیا کو الوداع کہا، وہ مختلف امراض کے شکار تھے، طبیعت میں اتار چڑھاؤ آتا رہتا تھا، طبیعت زیادہ خراب ہوئی تو انہیں پرساد ہوسپیٹل مظفر پور لایا گیا، لیکن وقت موعود آگیاتھا، اس لیے جاں برنہ ہو سکے، جنازہ آبائی گاؤں بوکھرا لے جایا گیا، جہاں ۵؍ مارچ کو بعد نماز عصر جنازہ کی نماز ان کے چھوٹے صاحب زادہ مولانا محمد انوار عالم فیاضی ندوی نے پڑھائی، کم وبیش چھ سو سوگواروں اور متعلقین کی موجودگی میں مولانا کا آخری سفر مقامی قبرستان تک ہوا، اور وہیں سپرد خاک کیے گیے، پس ماندگان میں تین لڑکی ،دو لڑکے ناتی، نتنی اور پوتے پوتیوں سے بھرا پُرا خاندان کو چھوڑا، ایک لڑکی میرے چھوٹے بھائی ماسٹر محمد فداء الہدیٰ کے نکاح میں ہے، اہلیہ پہلے ہی فوت ہو چکی تھیں، ان کی جدائی کے صدمہ نے ان کے جسم کے دفاعی نظام کو نقصان پہونچا یا تھا، یہ حادثہ ان کے لیے سوہان روح تھا، جس کی وجہ سے بھی وہ کمزور ہوتے چلے گیے تھے۔
مولانا کی پیدائش ان کے آبائی گاؤں بوکھرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں اسناد کے مطابق یکم فروری ۱۹۴۵ء کو ہوئی، مولانا کی نانی ہال چکنا ٹولہ پنڈول ضلع سیتامڑھی تھی، نانا کا نام محمد دانیال تھا۔ ابتدائی تعلیم گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد ان کا داخلہ مدرسہ نور الہدیٰ پوکھریرا موجودہ ضلع سیتامڑھی میں کرایا گیا، یہاں کے استاذ مولانا مطیع الرحمن صاحب کی سر پرستی میں انہوں نے تعلیم حاصل کرنی شروع کی، مولانا موصوف آپ کے استاذ بھی تھے اور اتالیق بھی، بعد میں سسرالی رشتہ دار بھی ہو گیے کیوں کہ وہ مولانا کی اہلیہ کے پھوپھا تھے، مدرسہ نو رالہدیٰ کے بعد تعلیمی سفر کا ایک پڑاؤ مدرسہ امدادیہ دربھنگہ ہوا اور اگلا پڑاؤ مدرسہ عالیہ کولکاتہ ، کولکاتہ جانے کے قبل ہی مولانا کی شادی پوکھریرا ہی میں حافظ حمید الرحمن کی دختر نیک اختر سے ہو گئی، حافظ حمید الرحمن کولکاتہ کیلا بگان کی ایک مسجد میں امام تھے، ان کے ساتھ مولانا بھی کیلا بگان کی ایک دوسری مسجد میں امامت سے لگ گیے اور چند سال یہاں امامت کرتے رہے، علم کی تشنگی باقی تھی ، اس لیے مولانا نے اس وقت کے مدرسہ عالیہ میں (جو اب عالیہ یونیورسٹی کے نام سے جانا جاتا ہے) داخلہ لے لیا اور وہیں سے ممتاز المحدثین کی سند حاصل کی، کولکاتہ سے وہ گھر آئے تو پھر واپس نہیں گیے، موضع شاہ میاں رہوا، وایا بھگوان پور ضلع ویشالی میں امامت اور مکتب میں معلم کی جگہ خالی تھی، ۱۹۶۵ء میںیہاں امامت اور مکتب میں خدمت انجام دینے لگے، قسمت نے یاوری کی، قریب کی بستی سرسارام راج میں سری مہاراج سنگھ کے نام سے ایک ہائی اسکول کا قیام عمل میں آیا وہاں اردو پڑھانے کے لیے ایک استاذ کی ضرورت تھی، آپ نے عرضی گذاری اور آپ کی بحالی ۱۹۶۴ء کو ایک سو پندرہ روپے ماہانہ پرعمل میں آگئی، ملازمت ہائی اسکول میں ہونے کے باوجود ان کا قیام شاہ میاں رہوا میں ہی رہا، مختلف اوقات میں حاجی نیاز احمد، ذکی حسن مرحوم اور جناب محمد اصغر صاحب کے یہاں ان کا قیام رہا، ملازمت کے بیشتر روز شب یہیں گذرے ، پھر جب سرکار نے تبادلہ کی پالیسی بنائی تو آپ کا تبادلہ۱۰؍ جنوری ۱۹۹۶ء کو مظفر پور کے نواح میں واقع نیشنل ہائی اسکول کھرونا میں ہو گیا، اور یہیں سے ۳۱؍ جنوری۲۰۰۵ء میں مدت ملازمت پوری کرکے سبکدوش ہو ئے، سبکدوشی کے بعد اپنے گاؤں بوکھرا لوٹ گیے اور وہاں کی ملی سر گرمیوں اور گھریلو ضروریات پر اوقات صرف کرتے رہے ۔
مولانا بڑے سنجیدہ، بردبار ، مخلص ، خوش اخلاق اور صائب الرائے انسان تھے، میری نانی ہال بھی شاہ میاں رہوا ہے، اس لیے والد صاحب ماسٹر محمد نور الہدیٰ (م ۲۰۱۷) سے ان کی بہت بنتی تھی، والد صاحب جب رہوا رہنے لگے تو ان کی محفلیں خوب جمتی تھیں، میرے والد صاحب کم گو تھے، بولتے کم، سنتے زیادہ تھے، لیکن جب میرے ماما محمد عمر آزاد (م ۱۹۸۳) اور مولانا خورشید صاحب کے ساتھ بیٹھتے تو گفتگو میں رات کا بیش تر حصہ گذر جاتا اورکھانے پینے کا بھی ہوش نہیں رہتا، اس سے ان دونوں کی ذہنی ہم آہنگی کا پتہ چلتا ہے، اسی ذہنی ہم آہنگی اور قربت کی وجہ سے میرے ایک بھائی کا رشتہ بھی ان کی صاحب زادی سے ہوا اور ہم لوگ رشتہ کی ڈور میں بندھ گیے۔
مولانا ہم لوگوں پر انتہائی شفیق تھے، خرد نوازی کا کا مزاج تھا، اس لیے ہم لوگوں کے چھوٹے چھوٹے کاموں کو بھی سراہتے اور حوصلہ افزائی کرتے،مولانا کے ایک بھائی مولانا خلیق الزماں صاحب دا رالعلوم دیو بند میں ہمارے ہم عصروں میں تھے، اب بھی بقید حیات ہیں، لیکن بیمار چل رہے ہیں، اللہ انہیں لمبی عمر دے، وہ قاضی بہیرہ جالے کے مدرسہ میں صدر مدرس ہیں اور ان کی تعلیمی خدمت کا دائرہ بھی وسیع ہے۔
مولانا خورشید عالم صاحب مرحوم جہاں بھی رہے اپنے اخلاق اور کردار سے لوگوں میں محبوب رہے، انہوں نے اردو کی ترویج واشاعت کے لیے بھی کام کیا، اپنے پیچھے شاگردوں کی ایک بڑی تعداد چھوڑی، ایک دو سرا وصف ان کا یہ تھا کہ وہ اپنی شرطوں پر جیتے تھے، قیام کسی کے یہاں رہے وہ جی حضوری کے عادی نہیں تھے،صاف بولتے تھے اور کھری کھری سناتے تھے، حاضر جواب تھے اس لیے دوسروں کو لاجواب کرنے کا فن انہیں خوب آتا تھا، وہ اپنے مخالفین سے نمٹنا بھی جانتے تھے اور ان کو چاروں شانے چت کردیا کرتے تھے، اس کے لیے انہوں نے کبھی لاٹھی ڈنڈا نہیں اٹھایا ، حکمت عملی اور تدبیر ان کے کامیاب ہتھیار تھے اور وہ ان سے کام لینا خوب جانتے تھے، جب تک ان کی چلتی رہی اپنے عزیز واقرباء پر دادودہش کا سلسلہ جاری رکھا، اہلیہ کے انتقال سے ذہنی طور پر اس قدر متاثر ہوئے کہ اس کا خیال ہی جاتا رہا، لیکن ان کی محبوبیت ومقبولیت میں کوئی کمی نہیں آئی۔
اب مولانا ہمارے درمیان نہیں ہیں وہ اس مالک کے پاس چلے گیے جو ارحم الراحمین ہے، غفار الذنوب اور ستار العیوب ہے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کے اعمال صالحہ کو قبول فرمائے، سیئات سے در گذر کرے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے ۔ آمین یا رب العالمین