میں نے اپنی زندگی میں علمی اعتبار سے کچھ ایسے بلند پایہ علمائے کرام اور باصلاحیت لوگوں کو دیکھا ہے، مگر ان سے امت کو کوئی فائدہ نہیں ہوا، انہوں نے امت کو فائدہ پہنچانے کی کوشش نہیں کی، تواللہ تعالیٰ نے بھی ایسے لوگوں سے کام نہیں لیا،وہ لوگ اپنی ذہانت میں رہ گئے۔اس کے برعکس معمولی قسم کے افراد سے اللہ تعالیٰ نے ایسا کام لیا کہ وہ غیرمعمولی انسان بن گئے۔ ایسی ہی شخصیتوں میں سے ایک اماموری ضلع ویشالی کے باشندہ اور مدرسہ اسلامیہ اماموری کے یکے از بانیان وسابق پرنسپل مولاناالحاج شاہ عبدالقیوم صاحب شمسی بھی ہیں۔ حضرت مولانا شمسی کسی بڑے دینی ادارہ کے فاضل نہیں ہیں ،یا اس طرح تعلیم حاصل نہیں کی جو عام لوگوں کو نصیب ہوتی ہے۔
مولانا عبدالقیوم شمسی بن شیخ موسی کا بچپن اور جوانی انتہائی تنگ دستی اور مفلوک الحالی میں گزری۔گھریلوحالات انتہائی ناگفتہ بہ تھے، والد محترم محنت مزدوری کرکے اپنے فرزند ارجمند کو تعلیم سے آراستہ کیا۔
مولانا ڈیڑھ سال کے تھے تو والدہ محترمہ حسینہ خاتون کا سایہ سر سے اٹھ گیا، ان کی پرورش وپرداخت کی مکمل ذمہ داری ان کے والد محترم کے نازک کندھے پر آ گئی،انہوں نے ان کی پرورش میں کسی طرح کی کوتاہی نہیں برتی، جہاں جاتے ان کو اپنے ساتھ لے کر جاتے، دوسروں کی کھیتوں میں مزدوری کرنے اور گھروں میں برتن دھونے جاتے تو اپنے لخت جگر کو بھی ساتھ لے جاتے، روزہ مرہ کا ان کا یہی معمول تھا۔
جب پڑھنے کے لائق ہوئے تو ابابکر پور کواہی کے مکتب میں داخل ہوئے۔کچھ بڑے ہوئے تو تلاش معاش کے لئے پٹنہ چلے گئے اور تعلیم کے ساتھ ساتھ بیڑی بنانے لگے۔اللہ تعالیٰ نے مولانا عبدالقیوم صاحب شمسی کو بے انتہا ذہانت ،لیاقت اور سمجھ بوجھ سے نوازا تھا،جس کی وجہ سے وہ حالات کا مقابلہ اور سنگ لاخ وادی کو ہنستے کھیلتے عبور کرتے رہے ، یہاں تک کہ آپ پٹنہ میں بیڑی بناتے ہوئے نیکوں کی صحبت میں کامیابی کے ساتھ ترقی کرتے گئے ۔
قیام پٹنہ کے درمیان مولانا شاہ عبدالقیوم شمسی اور رفقائے کار کی مدد سے’’مدرسہ اسلامیہ ‘‘کے نام سے ایک مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی،جہاں سے ماشاءاللہ بڑی تعداد میں علمائے کرام تیار ہوئے اور آج بھی گاؤں اور بیرون اضلاع کے طلبہ مدرسہ اسلامیہ میں اپنی علمی تشنگی بجھا رہے ہیں۔
مدرسہ کے ضمن میں مولانا محترم کے بڑے صاحبزادہ اور جواں سال عالم دین مدرسہ احمدیہ ابابکر پور کے مؤقر استاذ و ناظم مدرسہ حسینیہ چھپرہ خرد ضلع ویشالی مولانا محمد قمر عالم ندوی تحریر کرتے ہیں:
’’۱۹۷۸ء میں ’’مدرسہ اسلامیہ‘‘ اماموری کی داغ بیل ڈالی گئی، مدرسہ کی ترقی میں دل کھول کر حصہ لیا ،ارکان مدرسہ نے صدر مدرس کی ذمہ داری نازک کاندھے پر ڈال دی، جس کو اللہ کے فضل وکرم سے نومبر ۲۰۲۲ء تک نبھایا، مدرسہ پھلا پھولااور خوب ترقی کیا، یہاں سے فارغ ہوکر علماء کی ایک ٹیم مختلف میدان میں کام کررہی ہے، مولانا امام الدین ندوی، حافظ جنید عالم ندوی قاسمی، محمد ابصارعالم ندوی، حافظ محمد عمر فاروق ندوی اور راقم الحروف کے بھائی اور کئی کتابوں کے مؤلف محمد صدرعالم ندوی بھی یہیں کے پیداوار ہیں۔‘‘
(’’آہ! میرا بھائی مجھ سے بچھڑگیا‘‘ص ۳۱-۳۰)
حضرت مولانا شاہ عبدالقیوم شمسی سبکدوشی کے بعد بھی ماضی کی طرح محلہ دھنکول کی جامع مسجد میں امام وخطیب ہیں،پیرانہ سالی کے باوجود بھی وہ تھکے نہیں ہیں ،وہ ہردم رواں دواں ہیں اور آج بھی ان کا فیض جاری وساری ہے۔
اللہ تعالیٰ نے مولانا کو پانچ بیٹے اور پانچ بیٹیوں سے نوازا، دوبیٹے اور ایک بیٹی کمسنی ہی میں انتقال کرگئے۔ تین بیٹے مولانا محمد قمرعالم ندوی، مولانا محمد صدرعالم ندوی اور مولانا قاری محمد قطب عالم ندوی ہیں، مگر افسوس ہے کہ عزیزم قطب عالم ندوی ۹؍مئی ۲۰۱۱ء کو آپریشن کے دوران پی ایم سی ایچ (پٹنہ میڈیکل کالج اینڈ ہاسپٹل) میں صرف ۲۳؍ سال کی عمر میں اللہ کو پیارے ہوگئے۔مولانا قطب عالم ندوی چھوٹے ہونے کے باوجودعلمی اعتبار سےاپنے دونوں بڑےبھائیوں پر فوقیت رکھتے تھے، چونکہ مولانا محمد قمرعالم ندوی اور مولانا محمد صدرعالم ندوی حافظ وقاری نہیں ہیں جبکہ مولانا قطب عالم ندوی نے حفظ قرآن کے ساتھ ساتھ روایت حفص اور قرأت سبعہ بھی کیا تھا۔
مولانا محترم صبرواستقامت کے پہاڑ ہیں، بچپن سے لےکر پیری تک بہت غم جھیلے ہیں، مگر میں سمجھتا ہوں کہ ان کا سب سے بڑا غم جواں سال عالم دین مولانا قطب عالم ندوی کی موت کا ہوگا۔وہ بیٹے کے جانے کے درد کو آج بھی شدت سے محسوس کرتے ہوں گے۔
مولانا نے اپنے تمام بچے اور بچیوں کی تعلیم سے آراستہ کیا، بڑے بیٹے مولانا محمد قمر عالم ندوی مدرسہ عالیہ عرفانیہ چوک لکھنو میں استاذ رہ چکے ہیں اور مولانا محمد صدر عالم ندوی ویشالی ضلع ہی کے پلس ٹو ہائی اسکول میں استاذ ہیں۔ دونوں بھائی انتہائی متحرک، فعال اور کئی کتابوں کے مصنف ہیں۔ وہیں ادبی اور تحریکی تنظیموں سے وابستہ ہیں، جس کی وجہ سے دونوں بھائیوں کی پٹنہ آمد کثرت سے ہوتی ہے۔
حضرت مولانا شاہ عبدالقیوم صاحب شمسی دامت برکاتہم کو میں کم وبیش تین دہائیوں سے بھی زائد سے جانتا ہوں، مولانا سے میری صرف تین ملاقاتیں ہیں، دوبار پٹنہ میں اور ایک بار حاجی پور میں ہوئی۔ ایک بار تو وہ اپنے بڑے بیٹے مولانا محمد قمر عالم ندوی کے ساتھ میری رہائش گاہ عالم گنج پٹنہ میں بھی تشریف لائے اور بہت دعائیں دیں۔مولانا کی خوش اخلاقی، خوش وضعی اور شفقت کاانداز آج بھی میرے دل ودماغ پر نقش ہے۔
۱۹۹۹ء سے ہی ان کے تینوں بیٹوں سے میرے بڑے اچھے اور گہرے تعلقات ہیں، ایک تو اللہ کو پیارے ہوگئے ، باقی کو اللہ سلامت رکھے۔
حضرت مولانا موصوف بافیض عالم دین ہیں، اپنے اخلاص وللہیت اور خدمات کی وجہ سے وہ علمی اور دینی حلقوں میں اعتبار اور احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں، اللہ تعالیٰ ان کا سایہ تادیر قائم رکھے تاکہ امت اور نئی نسل کے لئے مزید کام کرسکیں۔
حضرت کی پیدائش یکم دسمبر ۱۹۶۰ء کو ویشالی ضلع کے پاتے پور بلاک کے اماموری گاؤں میں ہوئی۔
آپ نے پرائیویٹ سے بہار اسٹیٹ مدرسہ ایجوکیشن بورڈ پٹنہ سے فوقانیہ، مولوی، فاضل عربی اور فاضل اردو پاس کیا۔ اس کے بعد متھلایونیورسٹی سے بی اے اور بھاگلپور یونیورسٹی سے ایم اے کیا۔
آپ کے آبائی گاوں’اماموری‘ میں ’مدرسہ اسلامیہ‘ کے نام سے مدرسہ کی بنیاد رکھی گئی تو بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور لوگوں کے اتفاق رائے سے آپ مدرسہ کے صدر مدرس منتخب ہوئے۔نومبر ۲۰۲۲ء میں آپ سبکدوش ہوئے۔اس دوران آپ نے مدرسہ کی تعمیر وترقی میں خوب حصہ لیا، بلکہ یہ کہا جائے کہ مدرسہ کو پروان چڑھانے میں آپ کا خون جگر شامل ہے ،تو بے جانہ ہوگا۔
مولانا محترم کا اصلاحی،تربیتی اور بیعت کا تعلق کئی بزرگوں سے رہا، سب سے پہلے شیخ الاسلام علامہ شبیراحمد عثمانی اور علامہ یوسف بنوری کے شاگرد رشید،جامعہ رحمانی مونگیر کے سابق شیخ الحدیث حضرت مولانا سید محمد شمس الحق نور اللہ مرقدہ ؒسے بیعت ہوئے۔ حضرت کے انتقال کے بعدآپ کا اصلاحی تعلق مفکراسلام حضرت مولانا سید شاہ محمد ولی رحمانی سے رہا۔ ان کے وصال کے بعد شیخ الحدیث حضرت مولانا سید شمس الحق نوراللہ مرقدہ کے صاحبزادہ اور جانشیں حضرت مولانا سید مظاہر عالم قمر شمسی سے بیعت ہوئے اور انہوں نے آپ کو اجازتِ بیعت و خلافت سے بھی نوازا۔حضرت مولانا شاہ مظاہر عالم دامت فیوضہم کے آپ سب سے پہلے خلیفہ و مجاز بیعت بھی ہیں۔
اللہ کی توفیق سے آپ کو دوبار حج کی سعادت نصیب ہوئی، پہلی بار ۲۰۰۱ء میں اور دوسری مرتبہ ۲۰۱۷ء میں ،اسی سال۲۰۲۴ء میں آپ کو عمرہ کرنے کا بھی شرف حاصل ہوا۔
مولانا محترم کو ندوہ اور اس کی فکر سے بھی گہری مناسبت ہے، جس کا عملی ثبوت یہ ہے کہ انہوں نے اپنے تینوں فرزندوں مولانا محمد قمر عالم ندوی ،مولانا محمد صدرعالم ندوی اور مولانا قاری محمد قطب عالم ندوی کو دارالعلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ بھیجا اور وہیں سے تینوں بیٹوں نے فراغت حاصل کی۔افسوس ہے کہ آخرالذکر مولانا قاری محمد قطب عالم ندوی محض ۲۳؍سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔
مولانا عبدالقیوم شمسی دامت برکاتہم اس عمر میں بھی دعوت وتبلیغ میں مصروف ہیں، فی الحال آپ’’ اصلاحی لائبریری ‘‘اماموری ،ویشالی کے بانی وصدر اور جامع مسجد دھنکول ،ویشالی کے امام وخطیب ہیں۔
حضرت مولانا شمسی کی زندگی جہدمسلسل سے عبارت ہے، آپ تصنع اور بناوٹ سے پاک ہیں،بلکہ آپ کے ہر عمل سے سادگی جھلکتی ہے، یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو نیک اور صالح اولاد سے نوازا ہے جو آپ کے نیک نامی کے سبب ہیں اور ان شاءاللہ رہیں گے۔
تحریر: محمد شمیم اختر ندوی
عالم، گنج، پٹنہ
رابطہ : 9905628270