تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ
اس وقت جھارکھنڈ میں اردو کا مدعا بڑے زور و شور سے چل رہا ہے ، اردو کے محافظوں کی فکر آسمان چھو رہی ہے ، رات کی نیندیں اڑ چکی ہیں ، عقل اپنی بساط لپیٹ چکی ہے ، حکومت کے اس دوغلا پالیسی نے اردو دنیا میں بھونچال پیدا کردیا ہے ، آئے دن جلسے جلوس ، احتجاجی مظاہرے اخباروں کی سرخیاں بٹور رہے ہیں ، بہر حال اپنا حق وصولنے کیلے اور حکومت سے اپنا مطالبہ کرنے کا ہر ایک کو اختیار ہے ، جمہوریت کی تو یہی خاصیت ہے کہ وہ ہر شخص کو لکھنے بولنے کی کھلی آزادی دیتی ہے ، ہمارا ملک چونکہ ایک جمہوری ملک ہے لہذا ہر شخص یہاں اپنا مدعا بیان کرنے کیلیے آزاد ہے ،
پچھلے کچھ سالوں سے یہاں تو ہر دن کسی نہ کسی مسئلہ کو لیکر احتجاجی مظاہرے دیکھنے کو ملتا ہے ، اور ساتھ ہی ساتھ نتیجہ بھی منفی روئیے کے ساتھ نظروں کے سامنے آجاتا ہے ، جب سے ھر مسئلہ نے احتجاج کی شکل اختیار کی ہے اس وقت سے احتجاج بھی اپنا اثر کھو چکا ہے ، کسی احتجاج میں وہ دم نہیں رہا جو انقلاب برپا کردے وجہ اس کی یہی ہے کہ ہمارا احتجاج یا تو جوشیلے انداز میں ہوتا ہے ایک دو دن خوب نعرہ بازی کی تین دن تک دھرنے پر بیٹھ گئے یا پھر یوں ہوا کہ میمورینڈم تھانے دار کو پیش کردیا اس کے بعد ہم یہ سمجھتے ہیں کہ چلو اب ہمارا کام ہوگیا ،
یہی حال اردو کے ساتھ بھی ہورہا ہے ، اردو کے نام پر ایک بھیڑ جمع ہوتی ہے اپنی زبان کو گندہ کرکے دو تین گالی حکومت کو دیتی ہے اور پھر اپنے گھر کی راہ لیتی ہے اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ ہم اردو کے سچے محافظ ہیں ، معذرت کے ساتھ عرض کرتا ہوں مظاہرین میں نوے فیصد ایسے ہوتے ہیں جو اردو سے نابلد ہوتے ہیں ، لکھنے کی تو دور کی بات ایک لفظ بھی پڑھنے کا شعور نہیں ہوتا ، یہ زبان ہے اور کسی بھی زبان کو چیخ چیخ کر گلے پھاڑ پھاڑ کر تحقظ فراہم نہیں کیا جا سکتا ، زبان کی حفاظت کی جاتی اس کو پڑھ کر اس کو سیکھ کر صرف مظاہروں سے اور حکومت کو گالی گلوج کرنے سے اردو کی عظمت رفتہ بحال نہیں کیا جا سکتا ،
دوسرا گروہ جو اردو خاندہ طبقہ ہے، ان کے ساتھ مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے آپ میں اردو پڑھنے تک محدود ہے ، یہ سلسلہ وار نہیں ہوتا بلکہ من کے مطابق ،
آج اردو اخبارات کے منتظمین اردو پرچوں اور رسالوں کے منتظمین پریشان ہیں کیونکہ نہ اردو اخبارات کو کوئی خریدنے والا ہے اور نہ کسی ادبی پرچوں سے کسی کو محبت ہے خریداری نہ ہونے کی وجہ سے کتنے پرچے بند ہو گئے اخبارات کی بساط سمیٹ دی گئی ،
خود میرے پاس کئی لوگوں کی شکایتیں آئیں کہ ۔۔ محترم اب اردو کا دم واپسیں ہے کیونکہ صدیوں سے ادبی رسالے جو شائع ہورہے تھے وہ کساد بازاری کے سبب اب بند ہونے کو ہے ، جو آج میدان میں مظاہرے کررہے ہیں اور جو اپنے آپ کو اردو کا محافظ کہلا تا ہے شاید ان کو کبھی توفیق ہوئی ہو کہ وہ کسی اردو اخبار یا کسی اردو رسالہ کی خریداری کریں ،
پھر کس منہ سے خود کو اردو کا محافظ سمجھتے ہیں ، آپ کے چیخنے چلانے سے حکومت کے خلاف گلہ پھاڑنے سے اردو کا مستقبل نہیں سنورنا سکتا ، اردو کی اس حالت کا حکومت سے کہیں زیادہ مجرم ہم ہیں ، پورے سماج میں اکاک دو گھر ایسا ہوگا جس میں اردو اخبار یا اردو رسالے یا اردو پڑھنے پڑھانے کا ماحول ہوگا ،۔ غلطی کا بوجھ خود ہمارے سر ہے پھر کس منہ سے ہم حکومت کو کوسنے پر تلے ہیں ہمارا دامن کورا ہے کس ہاتھ اور پاؤں سے ہم چل کر مظاہرہ گاہ میں آتے ہیں ، ایک طرف جبکہ اردو رسائل اردو اخبارات اپنی زوال کی دہائی دے رہے ہیں اور دوسری طرف محافظین اردو سڑک پر ہیں،
مجھکو اپنوں نے لوٹا غیروں میں کہا دم تھا،
اس لئے اگر آپ چاہتے ہیں کہ اردو محفوظ رہے اردو کی طرف کوئی آنکھ اٹھا کر نہ دیکھے تو سب سے پہلے آپ خود اردو لکھنا پڑھنا سیکھئے اور دم توڑتی اردو رسائل اور پرچوں کے خریدار بنئے گھر گھر اردو کا ماحول بنائے تب جاکر اردو کا تحفظ بحال ہوسکتا ہے
ورنہ فقط۔۔۔ شور مچانے سے کچھ نہیں ہوگا۔۔۔
نوٹ۔۔ اس تحریر سے سب کا اتفاق ضروری نہیں ہے،