شیخ یوسف القرضاوی حیات و خدمات

ازقلم: نور حسین افضل
اسلامک اسکالر، مصنف، کالم نویس صدر: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (مشرق وسطی)

شیخ یوسف القرضاوی 9 ستمبر 1926ء مصر میں پیدا ہوئے۔ 1926ء سے 1958ء تک مصر میں رہے، 1944ء سے 1958ء تک جامعہ الازہر میں اسلامی الہیات کے استاد رہے، مصنف اور شاعر بھی تھے، 1958ء میں قطر کی شہریت لی، قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مقیم رہے، اور جامعہ قطر میں تدریس کے فرائض بھی سرانجام دیے۔ ایک بیٹا جس کا نام عبدالرحمن یوسف ہے، عالمی اعزازات میں عالمی شاہ فیصل اعزاز برائے مطالعہ اسلامیات 1994ء اور دبئی بین الاقوامی قرآن مقدس اعزاز سے نوازے گئے۔ عالم اسلام کے ممتاز عالم دین، اور صدر عالمی اتحاد برائے علمائے اہل اسلام تھے۔ وہ دو برس کے تھے کہ والد انتقال کر گئے۔ اس کے بعد چچا نے پرورش کی۔ ان کے خاندان والے انہیں دکان دار یا بڑھئی بننے کو کہتے تھے۔ تاہم وہ اس دوران میں قرآن مجید حفظ کرتے رہے۔ نو برس کی عمر میں حفظ مکمل کر لیا۔ یوسف القرضاوی مشہور پاکستانی عالم دین سید ابوالاعلیٰ مودودی اور امام حسن البنا کے عقیدت مند تھے، ان کا یہ تعلق جوانی میں بھی برقرار رہا۔ مذہبی بنیادوں پر انہیں پہلی بار 1949ء میں جیل بھی جانا پڑا۔ ان کی بعض تصانیف نے مصری حکومت کو مشتعل کر دیا، چنانچہ ان کی قید و بند کا سامنا کرنا پڑا۔ مصری وزارت مذہبی امور میں کام کرتے رہے۔ پھر شیخ قطر چلے گئے، جہاں مختلف یونیورسٹیوں میں تدریسی خدمات سر انجام دیتے رہے۔ اسی طرح وہ الجزائر کی یونیورسٹیوں میں مختلف ذمہ داریاں بحسن و خوبی سر انجام دیتے رہے۔ شیخ یوسف القرضاوی یونین کونسل فتاویٰ اینڈ ریسرچ کے سربراہ تھے۔ انہیں عرب دنیا میں غیر معمولی مقبولیت حاصل تھی۔ وہ اسلام آن لائن ڈاٹ نٹ پر بھی لوگوں کے سوالات کے جوابات اور فتاویٰ جاری کرتے تھے۔ مسلمانوں کی اکثرت انہیں معتدل قدامت پسند قرار دیتی ہے۔ ان کے خیال میں یوسف القرضاوی عصر حاضر کے تقاضوں کو سامنے رکھتے ہوئے لوگوں کی رہنمائی کرتے تھے۔ 20 مارچ 2005ء کو دوحہ، قطر میں کار بم دھماکا ہوا تو انہوں نے اس کی شدید مذمت کی تھی۔ اس واقعے میں ایک برطانوی شہری جان ایڈمز مارا گیا تھا۔ شیخ کا کہنا تھا کہ اس قسم کے واقعات ایسے لوگ کرتے ہیں جو اسلامی تعلیمات سے ناواقف ہیں۔ ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ وہ دشمنوں کے ہاتھوں کھیل رہے ہوتے ہیں۔ شیخ فلسطینیوں اور عراق کے بڑیے حامی تھے اور مالی، جانی اور اخلاقی تعاون کے حوالے سے عالم اسلام کو ہمیشہ متوجہ کرتے رہے۔ شیخ یوسف القرضاوی کا کہنا ہے کہ پوری دنیا کے مسلمانوں کو گرین وچ ٹائم کی بجائے مکہ مکرمہ کے ٹائم کو مدنظر رکھنا چاہیے۔ وہ تصویر کشی کو جائز قرار دیتے تھے۔ وہ عالم اسلام میں جمہوریت کے قیام کے حامی تھے۔ ڈنمارک کے ایک کارٹونسٹ نے پیغمبر اسلام کے حوالے سے توہین آمیز کارٹون بنائے تو شیخ قرضاوی نے شدید غم و غصے کا اظہار کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اس کے جواب میں تشدد کرنا جائز نہیں۔ نائن الیون کے واقعہ کی خبر سنتے ہیں شیخ قرضاوی نے تمام مسلمانوں سے اپیل کی کہ وہ زخمیوں کے لیے خون کے عطیات دیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسلام صبر و تحمل کا دین ہے۔ وہ انسانی جان کی حفاظت پر زور دیتا ہے۔ معصوم انسانوں پر حملے گناہ عظیم ہے۔ ان کی اب تک 50 سے زائد کتب شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں "اسلام میں حلت و حرمت” ، ’’اسلام، مستقبل کی تہذیب‘‘، ’’اسلامی تحریکوں کی ترجیحات’’ اور ’’اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ ‘‘ بھی شامل ہیں۔ 26 ستمبر 2022 شیخ یوسف القرضاوی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے، إنا لله وإنا إليه راجعون۔ شیخ قرضاوی کو عصر حاضر میں علم و فکر کا مہر منیر سمجھا جاتا تھا۔ وہ اس دور کے حقیقی معنوں میں مجتہد تھے۔ علم و عمل کے آمیزے سے ان کا خمیر تیار ہوا تھا۔ اللہ تعالی ان پر اپنی خصوصی رحمتیں اور برکتیں نازل فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے