جذبۂ شہادت ایمان والوں کے لئے ایک عظیم دولت ہے۔مولانا عقیل ندوی

حضرت امام حسین کی تعلیم و تربیت کا گہوارہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی گود تھی۔مفتی محفوظ الرحمن

سرولی غوث پور،بارہ بنکی(ابوشحمہ انصاری)قصبہ سعادت گنج کی مرکز مسجد میں سالانہ جلسہ عظمتِ شہدائے اسلام کے عنوان سے جمعیت سعادۃ العلماء کے زیراہتمام منعقد ہوا۔ جس کی صدارت مفتی محمد عارف کاشفی نے فرمائی اور نظامت کے فرائض مولانا محمد غفران قاسمی نے انجام دئے۔ جبکہ تلاوت کلام اللہ محمد حسان عرفان اور نعت پاک کا نذرانہ مولانا عمر عبداللہ قاسمی نے پیش کیا۔ جلسہ میں خصوصی خطاب جرول ضلع بہرائچ کے مفتی محفوظ الرحمن قاسمی کا ہوا۔ مفتی محفوط الرحمٰن نے شہدائے اسلام پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ حضرت عثمان غنیؓ کی شہادت کے بعد حضرت علیؓ کی خلافت کے آغاز ہی سے مسلمانوں میں جو خانہ جنگی پیدا ہوگئی ، اس کا خاتمہ حضور اکرمﷺ کی پیشین گوئی کے مطابق حضرت علی کے جانشین حضرت حسنؓ کے ہاتھوں ہوا۔ حضور اکرم ﷺ نے اپنے ہردلعزیز نواسہ کے بارے میں یہ بشارت سنائی تھی کہ میرا یہ بیٹا سردار ہے امید ہے کہ اللہ اس کے ذریعہ مسلمانوں کی دو بڑی جماعتوں کے درمیان صلح کرائے۔ چنانچہ حضرت علی ؓکے بعد جب خلافت کے مسئلہ میں اختلاف ہوا تو آپ نے خلافت کی ذمہ داری حضرت امیر معاویہ کے سپرد کرکے خود کو اس نزاع سے دست بردار کرلیا۔ تاریخ اسلامی کا یہی وہ سال ہے جسے ’’عام الجماعۃ‘‘ (اجتماعیت واپس آجانے کا سال) کہا گیا۔
حضرت حسن ؓنے اختلاف ختم کرنے کے لئے گرچہ خود کو دستبردار کرکے حضرت امیرمعاویہ کو خلافت کی ذمہ داری سونپ دی۔ لیکن حضرت حسنؓ کے چھوٹے بھائی حضرت حسینؓ اس فیصلے سے راضی نہ تھے۔ پھر بھی اپنے بھائی کے اس فیصلے کا احترام کرتے رہے اور پھر رفتہ رفتہ حضرت معاویہ سے تعلقات بھی خوشگوار ہو گئے۔ اور کیوں نہ ہوتے کہ تعلقات کی خوشگواری میں جو چیزیں اصل محرک ثابت ہوتی ہیں وہ حضرت امیر معاویہ ؓ اور حضرت حسنؓ و حضرت حسین ؓمیں اچھی طرح موجود تھیں۔ مصالحت اور خوشگواری کی یہ فضا مسلسل چلتی رہی اور ہر طرف فتوحات کا جو سلسلہ خلافتِ عمری اور خلافت عثمانی میں شاندار طریقہ پر چل رہا تھا، درمیان میں اختلافات کی وجہ سے کچھ ماند پڑجانے کے بعد پھرسے اپنی پرانی شان پر شروع ہوگیا۔ اور اسلامی سلطنت کا دائرہ سرداری کی اعلی ترین خصوصیات کے حامل امیر المؤمنین کی حکمت وتدبیر کے نتیجے میں مزید وسیع ہوتا چلا گیا۔ اورمسلمان اپنے اس حلم وبردباری کے پیکر امیرکے ساتھ آرام وسکون ، انصاف اور عفوو درگذر کی فضا میں زندگی گذارتے رہے۔ لیکن اختلاف پھر اس وقت پیدا ہوگیا جب حضرت معاویہ اپنی پیرانہ سالی کی وجہ سے کسی کو اپنا جانشین بنانا چاہا اور اس کے لئے اپنے بیٹے یزید کو موزوں قرادیا۔ چنانچہ یزید کی جانشینی پر بہت سے لوگوں نے اختلاف کیا ، جن میں حضرت حسینؓ ، حضرت ابوبکر صدیقؓ کے فرزند حضرت عبد الرحمن ، حضرت عبد اللہ بن عمرؓ ، حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ سر فہرست ہیں۔
مفتی محفوظ الرحمن نے اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے کہا کہ حضرت حسین ایک صاحب بصیرت ، نواسۂ رسول ﷺ کی نگا ہ کو سیاسی حالات نے آنکھیں دکھائیں ، وطنی مفاد آڑے آئے ، وقت اور ماحول نے ساتھ دینے سے انکار کردیا ، مصلحتوں نے دامن پکڑا ، مشکلات نے راستہ روکا ، ہلاکتو ں کا طوفان نمودار ہوا ،فخر ومباحات کی تیز آندھیاں اپنا زور دکھارہی تھیں، لیکن اہل دین اور صحابہ عظام کا دینی ضمیر اس تبدیلی کو برداشت نہیں کرسکتاتھا، امام حسینؓ اور ان کے چھوٹے بڑے اعزاء و اقرباء کب یزید کی بیعت کرسکتے تھے اسلئے کہ جنتی جوانوں کے سردار حضرت امام حسینؓ حق و باطل کے درمیان ایک فیصل کا مقام رکھتے تھے، ان کی تعلیم وتربیت کا گہوارہ آ پ ﷺ کی گودتھی، اور آپ ﷺ کی آغوش میں پل کر اپنی حیات کاآغاز کیا تھا ، جن کے ناز آپ ﷺ نے برداشت کئے تھے۔ آپ ﷺ نے حضرت امام حسنؓ اور حضرت امام حسینؓ کے بارے میں فرمایا کہ دنیا میں میرے یہ دو پھول ہیں۔ اور فرمایاکہ اے اللہ میں ان دونوں کو محبوب رکھتاہوں۔ اخلاق، پیار ومحبت ، عظمت وبزرگی ، حکمت وشجاعت ، صداقت ، ایمانداری ، عدالت وسخاوت ، صبر وشکر اخلاق وکردار، حکمت وعفت ، عدالت اور جود و سخا میں آپ ﷺ کی جیتی جاگتی تصویر اور عملی نمونہ تھے، ان کی ہر ادا سنت مصطفی تھی، وہ قرآن حکیم کے ہر فرمان پر عمل پیکر بن کر رہے، انھوں نے اقتدار کا مقابلہ کردار کی بلندی سے ، کثرت کا مقابلہ قلت سے، ظلم وبربریت کا مقابلہ مظلومیت اور بے بسی سے کرنے کے ساتھ انکی ہمت وجسارت ، ان کی جوانمردی ، صبر و استقامت کہ خون کا ایک ایک قطرہ بہادیا ، لیکن آپ نے اپنی آواز میں پستی نہ آنے دی ، جبر کی اطاعت قبول کرنے سے انکار کرکے صبر کی تلوارسے ظلم کی شہ رگ کاٹ دی، اور خلافت وملوکیت کے درمیان ایک دیوار کھینچ دی کہ عقیدہ کی پختگی اور صبر واستطاعت سے ہی ایک مسلمان کی زندگی دنیا و آخرت میں کامیاب وسرخ روئی حاصل کرسکتی ہے ، خود حضرت امام حسینؓ کا قول تاریخ میں موجود ہے کہ، امام وہی ہے جو کتاب اللہ پر عامل ، انصاف کا خوگر ، حق کاتابع ، اور تعلق مع اللہ کی صفت سے متصف ہو۔
جلسہ میں حاجی مشتاق احمد امیر جماعت ، مولانا انیس کاشفی ، مولانا محمد اختر قاسمی ، مولانا عمرعبداللہ قاسمی ، مولانا فرمان مظاہری ، مولانا جنید قاسمی ، مولانا اسلام قاسمی ، کے علاوہ سیکڑوں لوگوں کی شرکت قابل ذکر ہے۔