یوم آزادی

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

پندرہ اگست ۲۰۲۲ء کو ہندوستان اپنی آزادی کی پچھہتر ویں سالگرہ منا رہا ہے، اس سالگرہ کو یاد گاری بنانے کے لیے مرکزی حکومت نے پورے سال آزادی امرت مہوتسو کا انعقاد کیاہے، جس میں ا پنی مرضی کی تاریخ بیان کرائی گئی اور ان لوگوں کو ہائی لائٹ کیا گیا، جن کی کارکردگی تحریک آزادی میں یا تو تھی نہیں یا تھی تو برائے نام تھی، اس معاملہ میں خصوصیت سے مسلمانوں کو نظر انداز کیا گیا، مولانا ابو الکلام آزاد ، مولانا حسین احمد مدنی، مولانا حسرت موہانی، مولانا محی الدین قادری، مولانا منت اللہ رحمانی، مولانا مفتی ظفیر الدین مفتاحی، اشفاق اللہ خان، مولانا احمد اللہ صادق پوری، مولانا جعفر تھانیسری رحمہم اللہ اور ان جیسے ہزاروں مجاہدین کی خدمت کو قابل ذکر نہیں سمجھا گیا، حالاں کہ جد وجہد آزادی میں مسلمان دوسرے لوگوں کی بہ نسبت سو سال قبل سے لگے ہوئے تھے۔ ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی کو پہلے غدر کہا جاتا تھا، اب شعور بیدار ہوا ہے تو اسے پہلی جنگ آزادی سے تعبیر کیا جاتا ہے، جب کہ مسلمان ۱۷۵۷ء سے ہی انگریز بھگاؤ مہم سے لگ گیے تھے، ٹیپو سلطان وغیرہ کا دور ۱۸۵۷ء سے پہلے کا ہے ، جنہوں نے انگریزوںسے لوہا لیا اور یہ کہتے ہوئے جان جاں آفریں کے سپرد کر دی کہ ’’گیدڑ کی ہزار سالہ زندگی سے شیر کی ایک دن کی زندگی بہتر ہے‘‘۔
مادر وطن کے ایسے جانباز سپوتوں کو فراموش کرکے دوسرے لوگوں کے گن گان کرنا اور تاریخ کو دوبارہ لکھنے کی بات اس تحریک کا حصہ ہے، جسے ہم ہندتوا کے نام سے جانتے ہیں اور جس کی جڑیں ہندوستانی سیاست میں اس قدر پیوست ہو گئی ہیں کہ بظاہر اس سے باہر آنے کی شکل ناممکن تو نہیں، دشوار معلوم ہوتی ہے، ایسے میں ہمیں بھی یوم آزادی کے موقع سے ان مجاہدین کو خصوصیت سے یاد کرنا چاہیے جن کو قصدا بھلا نے کی کوشش کی جا رہی ہے، حضرت مولانا مجاہد الاسلام قاسمی قاضی القضاۃ امارت شرعیہ نے آزادی کے پچاس سال مکمل ہونے پر کاروان آزادی کے نام سے پورے ہندوستان کا سفر کیا تھا، گرد کارواں کے طور پر یہ حقیر(محمد ثناء الہدیٰ قاسمی) بھی بہت ساری جگہوں پر شریک تھا، ہر جگہ قاضی صاحب نے یہ تحریک چلائی کہ گم نام مجاہدین آزادی پر کتابیں مرتب کی جائیں، چنانچہ بہار کے مسلم مجاہدین آزادی پر مولانا مفتی نسیم احمد قاسمی رحمۃ اللہ علیہ نے کتاب تیار کی تھی، احقر کا ایک مضمون بھی اس میں شامل تھا، یہ ضرورت اب بھی باقی ہے، ہم تاریخ کے دفینوں سے گمنام مسلم مجاہدین آزادی کو نکال کر لائیں اور علمی دنیا کے سامنے رکھیں، جب تاریخ کو مسخ کرنے کی کوشش ہو رہی ہو تو ہماری ذمہ داری صحیح تاریخ لکھنے اور پیش کرنے کی کچھ زیادہ ہی بڑھ جاتی ہے۔
یقینا ہندوستان نے آزادی کے ان پچھہتر سالوں میں بیش بہا ترقی کی ہے، کئی معاملوں میں ملک خود کفیل ہوا ہے، غربت کا رونا ہم چاہیں، جتنا روئیں، لیکن یہ حقیقت ہے کہ آزادی کے بعد لوگوں کے معیار زندگی میں بڑی تبدیلیاں آئی ہیں،غلام ہندوستان میں زمیندار اور رجواڑے ہی چین کی زندگی گذارتے تھے، عام لوگوں کی حیثیت رعیت اور بندھوا مزدوروں جیسی تھی، آزادی کے بعد عام لوگوں کے لیے سہولیات کے دروازے کھلے، زمین داری ختم ہوئی تو زمین کا بڑا حصہ کاشتکاروں کے ہاتھ لگا، ونوبا بھاوے کی بھودان تحریک نے بھی سماج کے پس ماندہ طبقات تک زمین پہونچانے کا کام کیا، بہت ساری جگہوں پر سرکاری اداروں کے کھولنے کی شکل بنی، جن گھروں میں سائیکل دستیاب نہیں تھی، اب ان گھروں میں کئی کئی موٹرسائکل بلکہ کار یں نظر آتی ہیں، ہندوستان میں غذائیت کی کمی کے باوجود ہندوستان، صومالیہ ایتھوپیا، سری لنکا، نیپال کی طرح پریشان حال نہیں ہے۔
دوسری طرف گذشتہ بیس سالوں میں مختلف حوالوں سے آزادی پر پابندی لگائی جا رہی ہے، اب حکومت طے کرتی ہے کہ ہم کیا کھائیںگے، کہاں نماز پڑھیں گے، اذان مائیک سے ہوگی یا نہیں، نصاب میں کیا پڑھایا جائے گا، بے گناہوں کو کس طرح این آئی اے اور ای ڈی کے ذریعہ ہراساں کیا جائے گا، مخالفین کی زبان بندی کے کیا طریقے ہوں گے، اہم موضوعات سے عوام کی توجہ ہٹا کر کس طرح انہیں غیر ضروری معاملات میں الجھا دیا جائے گا، آزادی کا مطلب اب یہ ہے کہ حکومت آزاد ہے ، وہ جس طرح چاہیے معاملہ کرے، عوام کی قسمت میں مہنگائی ہے، بے روزگاری ہے، تشدد ہے اور نظروں میں امن وسکون کی آس ہے، جو دور دور تک غائب ہے، اس طرح فیض کے لفظوں میں یہ داغ داغ اجالا اور شب گزیدہ سحر ہے، اور یقینا مجاہدین آزادی نے اپنی جان کا نذرانہ ان داغ داغ اجالوں کے حصول کے لیے نہیں دیا تھا، اسی لیے فیض کہتے ہیں۔
ابھی گرانیٔ شب میں کمی نہیں آئی نجات دیدہ ودل کی گھڑی نہیں آئی چلے چلو کہ وہ منزل ابھی نہیں آئی