جنگِ آزادی میں علماے کرام کا کردار ناقابلِ فراموش

ازقلم: احمد حسین مظاہری

یقیناً یہ بات ہر کس و ناکس شخص پر اظہر من الشمس ہے کہ تاریخِ ہند میں دو دن یعنی ٢٦/ جنوری اور ١٥/ اگست کو یادگاری اور تاریخی حیثیت حاصل ہے،اس لیے کہ برسوں کی ان گنت اور لاتعداد؛ جان کی قربانیوں کے بعد جب "تن کے گورے من کے کالے” انگریزوں کے آہنی اور خونی پنجوں سے آزادی نصیب ہوئی ہوئی تھی اور ٢٦/جنوری ١٩٥٠ء بروز پنج شنبہ اپنا ملک قانون عمل میں آیا تھا۔۔۔۔۔۔
آج بھی ملک بھر میں ١٥ /اگست کے موقع پر مجاہدین آزادی کی روایات کو یاد کے طور پر منایا اور شہیدانِ وطن کو خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے،اور ملک بھر میں تقریبات سجائی جاتی ہیں اور شہیدانِ وطن کی روایات کو تازہ کیا جاتا ہے۔
لیکن حیف! ۱۵/ اگست کے تاریخ ساز اور یادگار قومی دن کے مبارک و مسعود موقع پر جب مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو یاد کیا جاتا ہے،ان کو خراج عقیدت پیش کیا جاتا ہے،تو ان علماء کرام اور مجاہدین حریت کو یکسر نظر انداز کردیا جاتا ہے جنھوں نے ملک کی آزادی کی خاطر قید و بند کی صعوبتیں برداشت کیں،مالٹا اور کالا پانی میں ہر طرح کی اذیتیں جھیلیں اور جان نثاری و سرفروشی کی ایسی مثال قائم کیں جن کی نظیر نہیں ملتی؛شاذ و نادِر کہیں شہیدانِ وطن کی فہرست میں ہمارے اسلاف کا نام درج ہوتا ہے یہ ہی وجہ ہے کہ آج مسلمانانِ ہند کے نوجوانوں کو اپنے اسلاف کی قربانیاں یاد نہیں وہ ان کی قربانیوں سے نابلد ہیں۔۔۔
قارئین! ہندوستان کوطویل جدوجہدکے بعدآزادی کی نعمت حاصل ہوئی، جس کے لیے ہمارے اسلاف نے زبردست قربانیوں کانذرانہ پیش کیا؛ جنگِ آزادی میں بنیادی سے لیکر صبحِ آزادی تک ہر ایک موڑ پر امتیازی کردار ادا کیا ہے، جس کی ایک ہلکی سی جھلک شاملی کے میدان میں چل کر دیکھی جا سکتی کہ جنگ آزادی لڑنے اور وطن عزیز کے گلے سے طوق اتارنے کی خاطر میدانِ کارزار کے اندر دولاکھ فقط مسلمان شریک تھے اور ان میں بھی ٥١٠٠٠ علماء کرام شامل تھے.. اور یہ آزادی کے لازوال اور بیش قیمت دولت ہمیں ہندوستان میں” دان” کے بنیاد پر نہیں؛ بلکہ” بلیدان” کی بنیاد پر ملی ہے!
یہ بات بھی گوش گزار کر دوں کہ انگریز سامراج کے ظلم و استبداد اور غلامی و محکومی سے نجات دلانے اور ابنائے وطن کو عروسِ حریت سے ہم کنار کرانے میں،علماء کرام کی قربانیاں آب زر سے لکھی جانے کے قابل ہیں۔
لیکن حیف! حکومتِ ہند مسلمانوں کی ان قربانیوں کو دفنا کر ان کے جائز حقوق کو بھی فراموش کر رہی ہے نیز ان کے ہمراہ ہر دم اور ہر قدم پر سوتیلا سکوک کررہی ہے۔! ؎
جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا
جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں

قارئین! مسلم قوم نیز علماء کرام ہی ہے جس نے سب سے پہلے آزادی کا بگل بجایا، جس نے مختلف تحریکوں کو جنم دیا، جس کے مجاہدین نے ہند و بیرون ہند میں آزادی کے لیے ناقابل فراموش دوڑ دھوپ کی اور انگریز ہم ہی سے آزادی کے نعرہ کا زیادہ بدلہ لیتے رہے، کیونکہ ملک مسلمانوں سے چھینا گیا تھا اور پھر وطن سے محبت ایمان کا ایک حصہ ہے، اس لیے اس کی جدوجہد لازمی اور ضروری تھی، یہ وہ قوم تھی جس نے ان سے نفرت کی اس کی تہذیب پر لعنت بھیجی ان کے ملبوسات کو پاؤں تلے روند ڈالا… ہمارے بزرگوں کی اسی نفرت ومخالفت کا نتیجہ تھا کہ ملک آزاد ہوا.. اگر حضرت شیخ الہندؒ سے کوئی انگریز ہاتھ ملالیتا تو اس وقت کوئی چیز نہ چھوتے جب تک ہاتھ دھل کر صاف نہ کرلیں… انگریز خود کہتا تھا کہ اس محمود الحسن کو جلا دیا جائے اور جلا کر اس کی راکھ کو سونگھا جائے تو بھی اسکی راکھ سے انگریز سامراج کی ہی بو آئے گی۔۔۔۔
تاریخ ہند کی فہرست سے ہمارے اسلاف کو معزول کرنے والوں سنو….!!
انہیں شیخ الہندؒ کو مالٹا کے زنداں خانوں میں وہ درد ناک سزا دی گئیں کہ ان کے بیان سے بدن لرزتا ہے؛ آنکھیں روتی ہیں، شیخ الہندؒ کے انتقال کے بعد جب ان کو تخت پر لٹایا گیا تو دیکھنے والے حیرت زدہ تھے کہ شیخ الہند کی کمر پر گوشت نام کی کوئی چیز نہیں بلکہ صرف ہڈیاں ہیں۔شیخ الاسلام حسین احمد مدنی ؒ سے معلوم کیا گیا کہ کیا واقعہ ہے؟
مولانا مدنیؒ کی آنکھیں اشکبار ہوگئیں اور فرما نے لگے میرے شیخ نے مجھے منع کیا تھا کہ اس کا ذکر نہ کرنا… اے لوگو! مالٹا کے جیل خانہ میں آزادی کے نعرے کے جرم میں انگریز میرے شیخ کی کمر مبارک کو لوہے کی گرم گرم سلاخوں سے داغتا تھا یہاں تک کہ گوشت نام کی کوئی چیز باقی نہ رہ گئی….. ؎
کہ ہیں وہ سورما،وہ مجاہدہیں یہ، فیض سے جن کے یہ ملک آزاد ہے
انکو ہم بھول جائیں یہ زیبا نہیں، یہ وطن انکے احساس سے آباد ہ
قارئین! جب انگریز ہندوستانی قوم کو غلامی کی غیر مرئی زنجیروں میں قید کرنے میں کامیاب ہوگئے،یہاں کی دولت و ثروت کوبے دریغ لوٹنے لگے،یہاں کے باشندوں پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑنے لگے اور یہاں کی تہذیب سے کھلواڑ کرنے لگے اور اس کا سلسلہ مزید بڑھتا ہی گیا، پانی جب سر سے اوپر ہوگیا، تو ہندوستانیوں کے دلوں میں آزادیٴ وطن کا جذبہ پیدا ہوا اور سب سے پہلے مسلمانوں نے اس خطرے کی سنگینی کو محسوس کیا جو کہ تاریخ کی کتابوں میں روز روشن کی طرح عیاں ہے۔۔

قارئین! ان ہی علماء کرام کی جلائی ہوئی مشعل کی روشنی میں ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی بہادر شاہ ظفر کی قیادت میں لڑی گئی جس میں ہندوستان کے ہر فرقے کے لوگ شامل تھے؛ لیکن یہ جنگ ناکام ہوئی اور ناکامی کی قیمت سب سے زیادہ مسلمانوں کو چکانی پڑی، تقریبا دولاکھ مسلمان شہید ہوگئے جن میں تقریبا باون ہزارعلماء تھے ان کی جائدادیں لوٹ لی گئیں،اس قدر جانی و مالی نقصان کے باوجود تحریک آزادی کا سلسلہ مختلف شکلوں میں جاری رہا اور بالآخر ہمارا ملک تمام فرقوں ، بالخصوص مسلمانوں اور خاص طور سے علماء کی جہد مسلسل اور پیہم کو شش اور جانی ومالی قربانی کے بعد ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء کو آزاد ہوگیا، اور ۲۶/جنوری ۹۵۰ ۱ء سے جمہوری ملک قرار دیا گیا اور دستور کو سیکولر دستورکا نام دیا گیا۔(ماہنامہ دارالعلوم دیوبند /جمادی الثانیہ 1436)
اے قوم کے غداروں! ہماری خاک سے جنم لینے والے جن علماء نے جنگ آزادی میں قولا وعملا شرکت کی،ان کی فہرست بہت طویل ہے اور ان کے ناموں اور کارناموں سے تاریخ کی کتابیں پر ہیں……مزید تفصیل کی ضرورت نہیں تم لاکھ ان کی داستان معزول کردو ان شا اللہ!انکی داستانیں امر رہیں گی!
اے بہی خواہان قوم! ہمیں ان مجاہدین کی یادوں کو زندہ رکھنا ہوگا،ان کی بے مثال و لازوال قربانیوں سے اپنوں اور بیگانوں کو آشنا کرانا ہوگا، کیونکہ ملک کے غداروں اور مسلم دشمنوں کی کوشش یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کی قربانیوں سے ہندوستان عوام کو اندھیرے میں رکھا جائے.. اور یہ تاثر دیا جائے کہ جنگ آزادی مسلمانوں نے نہیں بلکہ ہندوؤں نے لڑی ہے یہ ہی وجہ ہے کہ ہماری نئی نسل ہمارے بزرگوں کی عظیم قربانیوں سے یکسر ناواقف ہوچکی ہے۔۔۔!حالانکہ یہ بات روز روشن کی طرح تاریخ کی کتابوں میں عیاں ہیں ہرطرح ہرموقع پرمسلمان جنگِ آزادی میں برابرشریک رہے ہیں، جن کوآج فراموش کیاجارہاہے! کسی شاعرنے کیاخوب کہاہے:

جب پڑاوقت گلستاں پہ توخوں ہم نے دیا

جب بہارآئی تو کہتے ہیں ترا کام نہیں