ڈاکٹر نورالسلام ندوی، پٹنہ
ستاروں سے آگے ثناءاللہ ثنا دوگھروی کی نظموں کا مجموعہ ہے، جسے انہوں نے بچوں کے لیے تخلیق کیا ہے، اس میں حمد و نعت کے علاوہ آٹھ نظمیں اور ایک غزل شامل ہے، کتاب کا آغاز حمد باری تعالیٰ سے ہوتا ہے، جس میں شاعر نے خدائے وحدہ لاشریک کی حمد و ثنا بیان کی ہے،معبود وہی ہے، اسی کی ذات قابل تعریف و توصیف ہے، اس نے بندوں کو سب کچھ بے مانگے عطا کر دیا، ضروریات کی ساری چیزیں دیں، بے ستون کے آسمان بنایا، ابر سے پانی کا برسنا، صبح و شام کا آنا جانا، چاند سورج کا اپنے وقت پر نکلنا اور ڈوبنا سب اسی کے حکم سے ہوتا ہے، اس کی حکمت ذرہ ذرہ میں پوشیدہ ہے، ہر کام کرتے وقت اللہ کا نام لینا چاہیے، حمد کا آغاز اس شعر سے ہوتا ہے،
ہےخدا کا نام بابرکت بڑا
اس سے ہر اک کام کی ہو ابتدا
حمد کے بعد ایک نعت شریف ہے، جس میں پیغمبر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اوصاف حمیدہ اور اخلاق محمودہ کا تذکرہ ہے، جس کے پڑھنے سے بچوں کے دلوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و محبت پیدا ہوتی ہے اور آپ کے بتائے ہوئے راستے پر چلنے کا جذبہ بیدار ہوتا ہے، پہلی نظم کا عنوان ہے پیارا دین اسلام اس نظم میں بچوں کو دین اسلام کی بنیادی باتیں بتلائی گئی ہیں، اسلام کی بنیاد توحید، نماز، روزہ، زکوٰۃ اور حج پر ہے، اسلام ہمیں اچھی باتوں کا حکم دیتا ہے، انہوں نے اس نظم کے ذریعے بچوں کو اسلام کے اخلاق و کردار کو اپنانے کا پیغام دیا ہے، ایک نظم کا عنوان ہے آؤ پیڑ لگائیں، یہ نظم بھی عمدہ اوربچوں کی طبیعت کے موافق ہے،عموماً بچے پیڑ پودے سے مانوس ہوتے ہیں، پیڑ پودے خدا کی نعمت ہے، اس سے قسم قسم کے پھل اور پھول آگتے ہیں، جو غذا اور دوا دونوں کے کام آتے ہیں، پیڑ پودے سےہریالی ہوتی ہے، جو ہماری زندگی کے لیے ضروری ہے، ان باتوں کو شاعر نے خوبی کے ساتھ شعری قالب عطا کیا ہے،انہوں نےبچوں کو پیڑ پودے لگانے کی بھی ترغیب دی ہے، موجودہ حالات میں اس نظم کی اہمیت مزید دو چند ہو جاتی ہے، چونکہ ماحولیات کے تحفظ کے لئے حکومتی سطح پر پیڑ پودے لگانے کی مہم جاری ہے،نظم کےچند اشعار دیکھئے:
خوب کھاتے ہو جو مزے سے پھل
لال پیلے یہ رنگ برنگے پھل
میٹھے میٹھے سے یہ رسیلے پھل
تندرستی تمہیں یہ دیتے پھل
پیڑ پودے اگر نہیں ہوتے
یہ سماں کیسے دل نشیں ہوتے
نظم پھول سی تتلی میں خوبصورت اور سہل انداز سے بچوں کی دلچسپی کے مدنظر تتلی اور اور اس کی دلکش اداؤں، بچوں کا اس کے لئے دیوانہ وار دوڑ نا بھاگنا، اس کو دیکھ کر خوش ہونا، جیسی پیاری اور بھولی بھالی اداؤں کو بیان کیا گیا ہے، اس کے شروع کے تین اشعار دیکھئے:
تتلی آئ تتلی آئ
دیکھو، دیکھو تتلی آئ
ننھی منی بھولی بھالی
پیاری پیاری پنکھوں والی
قدرت نے کیا حسن دیا
کتنا دلکش رنگ دیا
میں بھی روزہ رکھوں گا، اس نظم کا کردار ایک ننھا سا بچہ ہے، جس پر روزہ فرض نہیں ہوا ہے، لیکن سب کو روزہ رکھتے دیکھ کر اس کا بھی جی روزہ رکھنے کا کرتا ہے، وہ اپنی امی سے بولتا ہے، امی جان مجھے بھی سحری میں جگا دینا، گھر میں سب روزہ رکھتے ہیں، میں بھی روزہ رکھوں گا، بھوک پیاس کی شدت کو جانوں گا، اپنے رب کو راضی کروں گا، روز قیامت حشر میرا بھی روزہ داروں کے ساتھ ہوگا،اس نظم میں بچوں کے احساسات ونفسیات کی بھرپور رعایت کی گئی ہے، اسی طرح پھر سے بہاریں لوٹ آئیں گی کورونا کے عہد کی یاد تازہ کرتی ہے، اس نظم میں یہ دکھایا گیا ہے کہ کس طرح کورونا نے معمولات زندگی کو یکسر بدل دیا، اسکول کالج بند ہو گئے، بچے گھروں میں قید ہو گئے، بچے اپنے اسکول کے پرانے دنوں کو یاد کرتے ہوئے کہتا ہے، بس اب تو ایک ہی سپنا ہے، اسکول پھر سے کھل جاتے، پرانی بہاریں لوٹ آتیں، لیکن بچہ امید کا دامن نہیں چھوڑتا ہے، اور کہتا ہے ایک دن تاریکی چھٹ جائے گی،ایک نیا سویرا شروع ہوگا، دنیا معمول پر لوٹ آئے گی، اور اسکول پھر سے شروع ہوں گے، اس نظم کے ذریعے بچوں کے شوق علم کو ابھاراگیا ہے، وہ دولت کون سی دولت ہے، میں بھی علم کی اہمیت و افادیت بتلائ گئ ہے، ایک طویل نظم بچہ اور ستارہ ہے، یہ مکالماتی نظم ہے، بچہ اور ستارہ کے درمیان مکالمہ کافی دلچسپ اور سبق آموز ہے، بچہ ستارہ کو محو حیرت سے تکتا ہے، اس کی روشنی اور چمک سے لطف اندوز ہوتا ہے،بچہ ستارہ تک پہنچنے کی چاہ رکھتا ہے، ستارہ بچہ کی باتیں سن کر خوش ہوتا ہے اور جواب دیتا ہے،
تمہاری ہیں باتیں بڑی بھولی بھالی
بڑی ہی انوکھی بڑی ہی نرالی
بڑی پیاری، پیارے تری آرزو ہے
بڑوں سے بھی تیری بڑی جستجو ہے
ترے دل میں کتنے بھرے ولولے ہیں
بڑے اونچے پیارے ترے حوصلے ہیں
درخشاں ہیں ہم آسماں پر جو پیارے
تو تم بھی زمیں کے ہو روشن ستارے
نظم کورونا بھی مکالمہ کے طرز پر ہے، بچہ ماں سے کورونا کے بارے میں سوال کرتا ہے، ماں اس کو کورونا اور اس سے بچنے کی تدبیر بتا تی ہے،پانی خدائے تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، ہر جاندار کا وجود پانی سے ہے، نظم پانی کی اہمیت میں پانی کتنی ضروری اور قیمتی شئ ہے اس پر روشنی ڈالی گئی ہے، اس کے بے جا اصراف سے بچنے اور اس کی حفاظت کی تعلیم بھی دی گئی ہے، اخیر میں بچوں کی ایک خوبصورت غزل شامل ہے،
ثناءاللہ ثنا دوگھروی نے نے چند صفحات میں اپنی بات کہی ہے،اپنی بات کتاب کا بھرپور اور خوبصورت تعارف ہے، اس میں پوری کتاب کا خلاصہ آگیا ہے، یہ اقتباس ملاحظہ کیجیے :
اس کتاب کو بچوں کے لئے حتی المقدور مفید بنانے کی کوشش کی گئی ہے، جس میں تعلیم اور تربیت کے کئی پہلو روشن ہیں، کتاب میں کئی اہم موضوعات پر آسان الفاظ میں سادگی کے ساتھ کہی گئی نظمیں شامل کی گئی ہیں، تاکہ بچوں پ
ر گراں نہ گزرے اور اشعار کی تفہیم میں دشواری پیش نہ آئے، میرا مقصد یہ ہے کہ اس کتاب سے جہاں بچوں کی تفریح طبع ہو وہیں بچے نظموں سے بھی سبق حاصل کر سکیں،
زیر نظر کتاب کے ذریعے بچوں کی تربیت و رہنمائی کا فریضہ انجام دینے کی اچھی کوشش کی گئی ہے، ان کے موضوعات بچوں کے مزاج سے مطابقت رکھتے ہیں، نظموں کی زبان سادہ سلیس اور دلچسپ ہے، ان نظموں کی قرآت سے محسوس ہوتا ہے کہ شاعر نےنظموں کی تخلیق میں بچوں کی نفسیات اور ذوق و مزاج کی خاص رعایت برتی ہے، زبان سادہ اور آسان استعمال کی گئی ہے،جو بچوں کی فہم اور اس کے معیار کے مطابق ہے، ان نظموں میں مضامین کے لحاظ سے عمدہ تشبیہیں اور تراکیب استعمال میں لائی گئی ہیں،
شاعر نے اپنی بات کے تحت ایک جگہ تحریر کیا ہے کہ شاعر اور ادیب کو بچوں کا ادب تخلیق کرنے کے لئے اپنے آپ کو بچوں کی سطح پر لے جا کر سوچنا اور غور و فکر کرنا ہوتا ہے، یہ حقیقت ہے، اس کے بغیر بچوں کا بہترین ادب تخلیق کرنا مشکل ہے، انہوں نے جو نظمیں تخلیق کی ہیں وہ بچوں کی سطح پر جاکر تخلیق کی ہیں، بچوں کا ادب تخلیق کرنا قدرے مشکل اور نازک فن ہے، اور اس نازک فن پر وہی مکمل اتر سکتا ہے جو بچوں کی نفسیات، اس کے مزاج، مذاق اور پسند و ناپسند سے واقف ہو، اور اس سطح پر سوچنے اور فکر کرنے کی صلاحیت رکھتا ہو، عصر حاضر میں بچوں کے تخلیقی ادب پر کم دھیان دیا جا رہا ہے، اس پس منظر میں ہے ثنا دوگھروی کی یہ کاوش حوصلہ مندانہ اور قابل ستائش ہے،
مصنف بچوں کے بھی شاعر ہیں اور بڑوں کے بھی،شعری وادبی دنیا میں معروف و مشہور ہیں، اس سے قبل ان کی غزلوں کا ایک مجموعہ اڑان سے آگے شائع ہو کر داد تحسین وصول کرچکا ہے، صحافت و ادب سے یکساں دلچسپی رکھنے والے بچوں کے ادیب ثناء اللہ ثنا دوگھروی کی تازہ تصنیف ستاروں سے آگے ادب اطفال میں ایک بیش قیمت اضافہ ہے، کتاب کا سرورق خوبصورت اور کاغذ عمدہ ہے، 32صفحے کی مختصر کتاب کی قیمت پچاس روپے ہے، ایجوکیشنل پبلشنگ ہاؤس، نئی دہلی سے شائع اس کتاب کو بک امپوریم، سبزی باغ ،پٹنہ اور ناولٹی بک ہاؤس، قلعہ گھاٹ، دربھنگہ وغیرہ سے حاصل کیا جا سکتا ہے۔
Dr Noorus Salam Nadvi
Vill +Post Jamalpur
Via Biraul, District Darbhanga
Bihar, Pin Code 847203
E-mail : nsnadvi@gmail.com