مسلمانوں کے لہو سے ہی وطن کا باغ تازہ ہے

ازقلم: فرقانہ علیم، دربھنگہ

قوموں کی زندگی میں بعض حادثات واقعات اور عزم و عمل کے نشان ایسے ہوتے ہیں جو قومی زندگی کی پیشانی پر عظمت و جرأت کی علامت یا سیاہ داغ بن کر رہ جاتے ہیں ۔ انگریزی حکومت و اقتدار کے خلاف اجتماعی جدوجہد اور معرکہ تیغ و تفنگ کی روداد بھی تاریخ ہند کے چند ایسے ہی ممتاز ترین و ناقابل فراموش واقعات و حوادث میں سے ہیں جو قوموں اور ملکوں کی جرأت سطوت اور صلابت و استقامت کا نشان بن کر ان کی زندگی کی علامت اور ہمیشہ کے لئے یادگار بن گئی ہے ۔

15اگست 1947 کو طویل جدوجہد ، مسلسل قربانیوں کا نذرانہ پیش کرنے، انگریزوں کے خلاف تحریکیں چلانے ، قیدو بندکی صعوبتیں جھیلنے اور پھانسی کے پھندے کو بخوشی گلے لگانے کے بعد ہندوستان کو آزادی کی نعمت نصیب ہوئی ۔ حصولِ آزادی میں مسلمانوں خصوصاً علمائے کرام کی غیرمعمولی قربانی ناقابل فراموش ہے۔ خدا ترس بوریہ نشین علمائے کرام نے اپنی مخلصانہ جدوجہد سے تحریک آزادی میں جان ڈال دی اور انگریزوں کے پنج و استبداد سے ہندوستان کو آزاد کرانے میں اپنی عظیم قربانیاں پیش کی لیکن آج تاریخ کو مسخ کرنے، جاں باز و ایثار شیوہ علماء و مجاہدینِ آزادی کی خدمات اور ان کی سر فروشی کے آثار ونشانات تاریخ کے اوراق سے مٹانے کی انتھک کوشش جاری ہیں اور یہ باور کرایا جارہا ہے کہ ملک کی آزادی میں مسلمانوں کا کوئی خاص رول نہیں ہے اور جشن آزادی اور جشن جمہوریہ کے موقع پر صرف گاندھی ، نہر و، سبھاش چندربوس، بھگت سنگھ وغیرہ کا نام پوری طاقت سے لیا جاتا ہے ۔ آج پڑھے لکھے مسلمان بھی عموماً یہ کہتے ہیں کہ مسلمانوں نے برادر وطن کے ساتھ شانہ بشانہ جنگ آزادی میں حصہ لیا ہے اور یہ کہہ کر یہ سمجھتے ہیں کہ ہم نے مسلمانوں کی طرف سے دفاع کا حق ادا کردیا ، ہم سطحی سوچ اور مرعوب ذہنیت کو ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں ،ہم پوری بصیرت کے ساتھ خم ٹھوک کر کہتے ہیں کہ ہمارے علماء آزادی کی راہ میں اس وقت سرگرم سفر ہوئے جب فضا میں فرنگی استبداد کے ابتدائی آثار ہی ظاہر ہوئے تھے جب کہ دوسری قوموں نے اس وقت قدم بڑھائے جب تاریکیاں بڑھتے بڑھتے اس حد تک پہنچ گئی تھیں جہاں سے صبح امید ہویدا ہوتی ہے ۔ ہمارے اسلاف کے عظیم الشان کارناموں کے مقابلے دوسری قدموں کے کارنامے سمندر میں چلو سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے۔
یہ ایک غلط مفروضہ ہے کہ انگریزوں سے مسلح جدوجہد کا آغاز 1857 سے ہوا جو جان بوجھ کر عام کیا گیا ہے تاکہ 1857 سے سو سال قبل جس تحریک کا آغاز ہوا جس کے نتیجہ میں بنگال کے سراج الدولہ 1757 میں ،مجنوں شاہ نے 1776 میں، حیدر علیؒ 1768میں، ان کے بیٹے ٹیپو سلطان ؒ 1791میں، مولوی شریعت اللہ اور ان کے بیٹے دادو میاںؒ نے 1812میں اور سید احمد شہیدؒ نے 1831 میں انگریزوں کے خلاف جو باقاعدہ جنگیں لڑیں وہ سب تاریخ کے غبارہ میں دب جائیں۔ مسلمانوں کے دلوں میں انگریزوں کے خلاف نفرت کی چنگاری اس دن سے سلگ رہی تھی جس دن اس نے اپنے ناپاک قدم سے سرزمین ہند کو آلودہ کیا اور تجارت کے نام پر سیاسی اور فوجی اثر و رسوخ حاصل کرکے یہاں کے حکمرانوں کو بےدست و پا کردیا تھا ۔ سو سال مسلمان پوری طاقت و قوت کے ساتھ اپنے علماء کی قیادت میں ان سے نبردآزما رہے۔ 10 مئی 1857 کو تحریک آزادی کی جدوجہد کا دوسرا دور شروع ہوا اور غیر مسلم اہل وطن بھی تحریک آزادی میں
شریک ہوئے ۔
حق گو و حق نویس مؤرخ لکھتاہے کہ تقریبا پچپن لاکھ سے لیکر پچھتر ہزار تک مسلمانوں نے، علماء کرام نے،مدارس والوں نےآزادی ہند کےلیے اپنی جان کی قربانیاں پیش کی ہیں ۔
میلی سن لکھتا ہے کہ “اگر محب وطن اسے کہتے ہیں جو اپنے وطن کی برباد شدہ آزادی کے حصول کے لئے سازشیں کرے اور لڑے تو یقیناً مولوی ایک سچا محب وطن تھا – اس نے اپنی تلوار کو (میدان جنگ سے باہر) قتل کے داغ سے آلودہ نہ ہونے دیا – اس نے قتل کے کسی بھی واقعہ سے چشم پوشی گوارہ نہ کی وہ ان اجنبیوں کے خلاف بلند ہمتی سے لڑتا رہا جو اس کے وطن پر مسلط ہو گئے تھے اور اس کی یاد تمام قوموں کے مخلصوں اور بہادروں کی جانب عزت و احترام کی مستحق ہے ”
سراج الدولہ نے سب سے پہلے انگریز کے خطرے کو محسوس کیا اور پلاسی کے میدان میں ان سے جنگ لڑی اگر سراج الدولہ کا وزیر غداری نہ کرتا تو انگریز ہندوستان سے دم دبا کر بھاگ جاتے لیکن غدار وطن کی وجہ سے سراج الدولہ کو شکست ہوئی۔

دکن کے فرماں روا حیدر علیؒ اور ان کے بیٹے شیر میسور شہید ٹیپو سلطانؒ کے ذکر کے بغیر جنگ آزادی کی تاریخ ادھوری ہوگی جو مستقل انگریزوں کے لئے چیلنج بنے رہے۔
حیدر علی اور ٹیپو سلطان نے انگریزوں سے چار جنگیں کیں ، ٹیپو سلطان 1782 میں حکمراں ہوئے 1783 میں انگریزوں سے ٹیپو سلطان کی پہلی جنگ ہوئی اور انگریزوں کو شکست ہوئی ۔یہ جنگ 1784 میں ختم ہوئی، یہ میسور کی دوسری جنگ کہلاتی ہے ،انگریز اپنی شکست کا انتقام لینے کے لئے بےچین تھے؛ چناچہ 1792 میں انگریزوں نے اپنی شکست کا انتقام لیتے ہوئے حملہ کیا مگر اپنے بعض وزراء وافسران خصوصاً میر صادق کی بےوفائی اور اپنی ہی فوج کی غداری اور اچانک حملہ کی وجہ سے ٹیپو سلطان معاہدہ کرنے پر مجبور ہوئے انہوں نے راجاؤں مہاراجاؤں اور دیگر نواب و سلاطین کو انگریزوں کے خلاف جنگ لڑنے پر آمادہ کر لیا،سلطان ترکی اور دیگر حکمرانوں سے خط و کتابت کیا،انگریز ہار جاتے مگر جنوب کے امراء انگریز کے ساتھ مل گئے،آخر کار 1799 میں دکن کے سرنگا پٹنم میں میں سلطان ٹیپو کی قیادت میں انگریزوں کے خلاف مشہور رن ہوا جس میں سلطان ٹیپو شہید ہو گئے،ٹیپو کا مشہور قول تھا "شیر کی ایک دن کی زندگی گیدڑ کی سو سال کی زندگی سے بہتر ہے” سلطان نے اسے سچ کر دکھایا،جنرل ہارس کو جب ٹیپو کی شہادت کی خبر ملی تو وہ دوڑتا ہوا آیا اور سلطان کی نعش پر کھڑا ہو کر اس نے یہ جملہ کئی بار دہرایا’ آج سے ہندوستان ہمارا ہے‎ بحوالہ، ہندوستانی مسلمان ۱۳۷ ‎
جنگ آزادی میں شاہ ولی اللہ اور انکے شاگردوں کا کردار

یہ وہ دور تھا جب انگریزوں کے علاوہ ایران و افغانستان سے تعلق رکھنے والے دوسرے حکمراں بھی ہندوستان کو اپنے زیرنگیں کرنے کے لئے حملہ آور ہوئے اور 1738ءمیں نادر شاہ نے دہلی کو تباہ برباد کیا اور 1757ء میں احمد شاہ ابدالی نے دو ماہ تک مسلسل اس شہر کو یرغمال بنائے رکھا دوسری طرف انگریز فوجیں مرہٹوں سے ٹکراتی ہوئیں سراج الدولہ کو شکست دیتی ہوئیں اور ٹیپو سلطان شہید ؒ کو جام شہادت پلاتی ہوئیں دہلی طرف بڑھ رہی تھیں، ابھی انگریزوں نے پوری طرح دہلی کا اقتدار حاصل بھی نہیں کیا تھا کہ علماء ہند کے کارواں امام الہند حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ نے مستقبل کے خطرات کا ادراک کرلیا اور دہلی پر قبضے سے پچاس سال پہلے ہی اپنی جدوجہد کا آغاز کردیا اس کی پاداش میں آپ پر جان لیوا حملے بھی کئے گئے لیکن آپ اپنے نظرے پر ڈٹے رہے انہوں نے اپنی کتابوں میں خطوط میں تقریروں میں اپنا نظریہ پیش کیا ” تباہ حال شہر جس پر درندہ صفت انسان کا تسلط ہو جن کو اپنی حفاظت و دفاع کی پوری طاقت حاصل ہو یہ ظالم و جابر گروہ جو انسانیت کے لئے سرطان ہے ، انسان اس وقت تک صحت مند نہیں ہو سکتا جب تک اس سرطان کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک نہ دیا جائے ۔
(حجۃ اللہ البالغہ :الجہاد١١٥۷)
افسوس حضرت شاہ صاحب وفات پاگئے اور ان کا خواب تشنہ باقی رہ گیا۔حضرت شاہ عبدالعزیز دہلویؒ محض سترہ سال کے تھے مگر اپنے والد بزرگوار کے مشن کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے عزم واستقلال سے کام لیا اور اس تحریک کو دل و جان سے پروان چڑھایا۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی ؒ نے انگریزی استعمار کے روز افزوں خطرہ کو پوری طرح بھانپ لیا تھا ۔ ان کی دوررس نگاہیں دیکھ رہی تھیں کہ اگر سبزۂ بیگانہ کو جڑ سے نہیں اکھاڑا گیا تو تناور درخت بن جائے گا۔ وہ اس درخت کو دیکھ رہے تھے جس کے زہریلے پھل اور جس کی ڈالیاں خارزار ہوں ،جن سے دامن الجھے اور سکون و چین غارت ہوکر رہ جائے ۔
حضرت مولانا حسین احمد مدنیؒ تحریر فرماتے 1803 میں جب ایسٹ انڈیا کمپنی کے نمائندوں نے بادشاہ دہلی سے ملکی انتظام کا پروانہ جابرانہ طریقہ پر لکھواکر ملک میں اعلان کردیا کہ "خلق خدا کی ،ملک بادشاہ سلامت کا ،حکم کمپنی بہادر ” تو حضرت شاہ صاحب ؒ نے ہندوستان کے دارالحرب ہوجانے کا فتوہ دیا اور مسلمانوں کو آزادی ہند کے لئے آمادہ کرنا ضروری سمجھا ۔
انقلاب کی صدائے بازگشت کو دہلی سے باہر دور دور تک پہنچانے میں حضرت شاہ عبدالعزیز ؒکے تینوں بھائیوں حضرت شاہ عبدالقادر ؒ،حضرت شاہ رفیع الدین ؒاور حضرت شاہ عبدالغنیؒ کے علاوہ حضرت شاہ عبدالحئ ؒحضرت اسماعیل شہیدؒ ،حضرت سید احمد شہیدؒ اور مفتی الہی بخش کاندھلویؒ کے نام قابل ذکر ہیں۔

جنگ آزادی میں علماء دیوبندکاکردار

1857ء میں شاملی ضلع مظفرنگرکے میدان میں علماء دیوبندنے انگریزوں سے باقاعدہ جنگ کی، جس کے امیرحاجی امدالله مہاجرمکی رحمه الله مقررہوئے۔اور اس کی قیادت مولانارشید احمد گنگوہی ؒ ، مولاناقاسم نانوتوی ؒ ، اور مولانا منیر نانوتویؒ کررہے تھے۔ اس جنگ میں حافظ ضامن رحمه اللہ شہیدہوئے، مولانا قاسم نانوتوی رحمه اللہ انگریزوں کی گولی لگ کرزخمی ہوئے، انگریزی حکومت کی طرف سے آپ کے نام وارنٹ رہا؛لیکن گرفتارنہ ہوسکے،1880ء میں وفات پائی،دیوبندمیں قبرستان قاسمی میں آسودئہ خواب ہیں۔حاجی امداداللہ مہاجرمکی ؒ نے یہ محسوس کرتے ہوئے کہ ان حالات میں ملک میں رہ کراب اپنے مشن کوبرقراررکھنا ممکن نہیں، مکہ مکرمہ ہجرت کرگئے۔وہاں سے انھوں نے اپنے مریدین ومتوسلین کے ذریعہ ہندوستان میں اپنے ہدایت وفیض کاسلسلہ جاری رکھا۔1899ء میں وفات پائی اورجنت المعلیٰ میں دفن ہوئے۔ مولانارشید احمد گنگوہیؒ کو گرفتار کیا گیا اور سہارنپورکے قیدخانہ میں رکھاگیا،پھرکچھ دن کال کوٹھری میں رکھ کرمظفرنگرکے قیدخانہ میں منتقل کیاگیا۔چھ ماہ تک آپ کوقیدوبندکی مصیبتیں جھیلنی پڑی۔1905 ء میں وفات پائی۔گنگوہ کی سرزمین میں آسودہ خواب ہیں۔1857ء کی جنگ میں مسلمانوں کوبظاہرشکست ہوئی، مگریہ شکست نہیں، فتح تھی۔
1912ء میں ریشمی رومال تحریک کی ہوئی جس کے بانی فرزند اول دارالعلوم دیوبند شیخ الہند حضرت مولانا محمود الحسن ؒ تھے ۔ بقول مولانا سید ابوالحسن علی ندوی ؒ ” آپ انگریزی حکومت اور اقتدار کے سخت ترین مخالف تھے ، ٹیپو سلطان کے بعد انگریزوں کا ایسا دشمن اور مخالف دیکھنے میں نہیں آیا۔”
اس تحریک میں اہم رول آپ کے شاگرد مولانا عبیداللہ سندھی ؒ نے ادا کیا ، افغانستان حکومت کو مدد کے لئے تیار کرنا اور انگریزوں کے خلاف رائے عامہ بنانا مولانا کا مشن تھا ، شیخ الہندؒ نمائندے ملک کے اندر اور مکل کے باہر سرگرم اور افعال تھے ،افغانستان اور حجاز کے اندر قاصد کا کام کر رہے تھے، خلافت عثمانیہ کے ذمہ داروں سے رابطہ کرنے کے لئے شیخ الہندؒ ترکی جانے کا عزم مصمم کر لیا تھا اسی مقصد کے لیے وہ حجاز تشریف لے گئے اور وہاں دو سال قیام رہا مکہ مکرمہ میں پہنچ کر حجاز میں مقیم ترک گورنر غالب پاشا سے ملاقاتیں کیں اور ترکی کے وزیر جنگ انور پاشا سے بھی ملاقات کی جو ان دنقں مدینہ آئے ہوئے تھے انہیں ہندوستان کی صورتحال سے آگاہ کیا اور اپنے منصوبہ سے واقف کرایا، ان دونوں نے شیخ الہند کے خیالات اتفاق کرتے ہوئے ان کے منصوبوں کی تائید کی اور برطانوی حکومت کے خلاف اپنی حکومت کے تعاون کا یقین دلایا ،مولانا عبیداللہ سندھیؒ نے کابل سے ریشمی رومال پر جو راز دارانہ خطوط شیخ الہند کو مکہ مکرمہ روانہ کیے تھے ان کو حکومت برطانیہ نے پکڑ لیا اور یہی حضرت شیخ الہندؒ کی گرفتاری کا سبب بنا اور پورے منصوبے پر پانی پھیر دیا ۔
1917ء میں شیخ الہند ؒ اور ساتھوں کوبحیرئہ روم میں واقع جزیرہ مالٹا جلاوطن کیا گیا۔ مولاناحسین احمدمدنی ؒ ،مولاناعزیزگل پیشاوریؒ ،مولاناحکیم نصرت حسین ؒ،مولاناوحیداحمد ؒوغیرہم نے مدتوں اپنے استاذ شیخ الہندؒ کے ساتھ مالٹا کے قیدخانہ میں سختیاں برداشت کیں،مالٹاکے قیدخانہ میں انگریزوں نے شیخ الہند ؒ کے ساتھ ظالمانہ برتاؤ کیا، سخت سے سخت سزائیں دی گئیں؛چنانچہ مولانا حسین احمدمدنی ؒ فرماتے ہیں کہ جب شیخ الہند ؒ کو مالٹا جیل میں نظربند کیاگیا تو انگریز میرے استاد کو ایک تہہ خانہ میں لے گئے اور لوہے کی گرم تپتی ہوئی سلاخیں لے کرکمرپر لگاتے رہے اور ساتھ میں یہ فرماتے رہے کہ ”اے محمودحسن! انگریزکے حق میں فتوی دے“جب شیخ الہند ؒ ہوش میں آتے توصرف یہی فرماتے تھے کہ ”اے انگریز!میرا جسم پگھل سکتاہے، میں بلال کاوارث ہوں، میری جلد ادھیڑ سکتی ہے؛ لیکن میں ہرگز ہرگز تمہارے حق میں فتوی نہیں دے سکتا۔“شیخ الہندکی تحریک میں مولانامنصورانصاری ؒ ، مولانا فضل ربی ؒ ، مولانافضل محمود ؒ ،مولانامحمد اکبر ؒ کاشما راہم ارکان میں تھا۔مولانا عبدالرحیم رائے پوری ؒ ، مولانا محمداحمد چکوالیؒ ، مولانامحمدصادق کراچویؒ ، شیخ عبدالرحیم سندھیؒ، مولانا احمداللہ پانی پتی ؒ، ڈاکٹراحمدانصاری وغیرہ سب مخلصین بھی مخلصانہ تعلق رکھتے تھے،ان کے علاوہ مولانا محمدعلی جوہر ؒ، مولاناابواکلام آزاد ؒ الله ،مولانااحمدعلی لاہوری ؒ،حکیم اجمل خان وغیرہ بھی آپ کے مشیر ومعاون تھے۔

یہ ہماری عدم توجہی ہے اور کچھ لوگوں کی تنگ نظری بھی ہے کہ مسلم مجاہدین آزادی کو تاریخ کے صفحات سے مٹانے کی کوششیں کی جا رہی ہیں۔ جن لوگوں کی آزادی ہند میں کوئی قربانی نہیں انہیں ہیرو بنا کر پیش کیا جارہا ہے ۔ مسلم اداروں میں بھی یوم آزادی اور یوم جمہوریہ کے موقع پر تقریر کی شروعات گاندھی جی ، سبھاش چندربوس اور جواہر لال نہرو کے نام سے ہوتا ہے۔ ہم خود ہی اپنے اسلاف کی عظیم الشان قربانیوں کو فراموش کرچکے ہیں ۔ میلی سن لکھتا ہے کہ “اگر محب وطن اسے کہتے ہیں جو اپنے وطن کی برباد شدہ آزادی کے حصول کے لئے سازشیں کرے اور لڑے تو یقیناً مولوی ایک سچا محب وطن تھا – اس نے اپنی تلوار کو (میدان جنگ سے باہر) قتل کے داغ سے آلودہ نہ ہونے دیا – اس نے قتل کے کسی بھی واقعہ سے چشم پوشی گوارہ نہ کی وہ ان اجنبیوں کے خلاف بلند ہمتی سے لڑتا رہا جو اس کے وطن پر مسلط ہو گئے تھے اور اس کی یاد تمام قوموں کے مخلصوں اور بہادروں کی جانب عزت و احترام کی مستحق ہے "

اگر ہندو کی کوشش کا وطن کے رخ پہ غازہ ہے
مسلمانوں کے لہو سے ہی وطن کا باغ تازہ ہے