تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
بہار کے وزیر اعلیٰ نتیش کمار نے اپنی ہنر مندی اور کامیاب چال کے ذریعہ بی جے پی کا تختہ پلٹنے میں کامیابی حاصل کر لی ہے، اور آٹھویں بار وزیر اعلیٰ کی کرسی پر براجمان ہو گیے ہیں، اس ہنر مندی کو انگریزی میں ماسٹر اسٹروک کہتے ہیں، یہ لفظ ان کے لیے بی جے پی نے ۲۰۱۷ء میں استعمال کیا تھا، جب نتیش کمار نے عظیم اتحاد کو چھوڑ کر بھاجپا سے ہاتھ ملا لیا تھا، لالو پرساد یادو نے انہیں ’’پلٹو رام‘‘ کہا تھا، پانچ سال میں معاملہ پھر سے الٹ گیا ہے تو اب راجد والے انہیں ماسٹر اسٹروک لگانے والا کہہ رہے ہیں،ا ور بھاجپا والے پلٹو رام، بھاجپا یہ بھی کہہ رہی ہے کہ یہ جمہوریت کا قتل ہے، عوامی رائے دہی کی تذلیل ہے، سوال یہ ہے کہ جب ۲۰۱۷ء میں نتیش کمارعظیم اتحاد چھوڑ کر بھاجپا سے مل گیے تھے تو جمہوریت کا قتل اور عوامی رائے دہی کی توہین نہیں ہوئی تھی اس وقت بھاجپا نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھائے تھے، مثل مشہور ہے ’’میٹھا میٹھا ہپ، ہپ کڑوا کڑوا تھو تھو‘‘ سیاسی جماعتوں کا یہی حال ہے ، اقتدار کے حصول کے لیے یہ لوگ کسی حد تک جا سکتے ہیں، نہ پارٹی کا اصول ونظریہ سامنے رہتا ہے ، اور نہ ہی اخلاقی اقدار، کرسی سامنے نظر آئے تو کسی طرح لپک کر پکڑ لو۔
ایسے نتیش کمار نے این ڈی اے سے دامن چھڑا کربہت اچھا کیا، جس طرح این ڈی اے نے ’’چراغ ماڈل‘‘ قبول کرکے جد یو کی بہت ساری سیٹوں کو ہار میں تبدیل کرایا تھا، اس کا احساس نتیش کمار کو اسی وقت ہو گیا تھا، پھر آر سی پی سنگھ جو جدیو سے نکالے ہوئے تھے، ان کو سامنے رکھ کر بھاجپا جد یو کو توڑنے میں لگ گئی تھی ، حکومت کے اہم فیصلہ لینے میں بھاجپا روڑے اٹکا تی تھی اس کو نتیش کمار اپنی تذلیل سمجھتے تھے، یہ توہین ، آمیز سلسلہ اس قدر دراز ہوگیا تھا کہ نتیش کمار ایک بار اسمبلی میں اسپیکر سے بھی بھڑ گیے تھے، موجودہ صدر اور نائب صدر جمہوریہ کے انتخاب میں انہوں نے بھاجپا کا ساتھ پوری ایمانداری سے دیا تھا کیونکہ وہ بہار اڈیشہ ، جھارکھنڈ میں رہ رہے آدی باسیوں کو ناراض کرنا نہیں چاہ رہے تھے، لیکن ان کے اندر جو خفگی تھی اس کی وجہ سے نتیش کمارنے صدر ونائب صدر کی استقبالیہ اور الوداعیہ تقریب سے اپنے کو دور رکھا، نیتی آیوگ کی میٹنگ میں بھی دوسرے وزراء اعلیٰ کے ساتھ وہ شریک نہیں ہوئے، جلتے میں گھی کا کام بھاجپا کے صدر جے پی نڈا کے بیان نے کیا، جس میں انہوں نے بہار کی راجدھانی پٹنہ میں اپنے کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھاکہ ساری علاقائی پارٹیاں ختم ہو جائیں گی ، صرف بھاجپا رہ جائے گی، نتیش جی کو یہ بات بھی بُری لگی کہ امیت شاہ نے اپنے کارکنوں کو دو سو اسمبلی سیٹ پر تیاری کا حکم دیا، ظاہر ہے اس کا کھلا ہوا مطلب تھا کہ بھاجپا موقع ملتے ہی نتیش کمار کو سائڈ کرنے کا پروگرام بنا چکی ہے، اور مہاراشٹرا کی طرح اسمبلی ارکان کی خرید وفروخت آر سی پی سنگھ کے ذریعہ کرا رہی ہے ، ایسے میں نتیش کمار کواپنی بقاء کی جنگ لڑنی تھی اور اس کا آسان طریقہ یہی تھا کہ بھاجپا کو چھوڑ کر عظیم اتحاد کا ہاتھ پکڑ لیا جائے، نتیش کمار نے تسلیم کیا کہ ۲۰۱۷ء میں عظیم اتحاد سے الگ ہونا ان کی سیاسی اعتبار سے بڑی بھول تھی ۔ جب ساری ڈیل مکمل ہو گئی تو رسمی طور پر نتیش کمار جی نے اپنے پارلیامنٹ اسمبلی اور عہداراوں کی میٹنگ بلائی اور انہیں کہا کہ این ڈی اے حکومت میں ہمارے ساتھ تو ہین آمیز سلوک ہوتا رہا ہے اور پارٹی توڑنے کی کوشش ہو رہی ہے، کارکنوں نے حامی بھری اور نتیش جی نے گورنر کو اپنا استعفیٰ دے دیا، پھر رابڑی دیوی کے یہاں وہ عظیم اتحاد کے لیڈر چن لیے گیے اور ۲۰۱۷ء لوٹ کر آگیا، پہلے مرحلہ میں۱۰؍ اگست کو وزیر اعلیٰ اور نائب وزیر اعلیٰ کی حلف برداری بھی ہو گئی اور اس طرح نتیش کمار آٹھویں بار وزیر اعلیٰ اور تیجسوی یادو دوسری بار نائب وزیر اعلیٰ بن گیے، انہوں نے ایک سو چونسٹھ ارکان اسمبلی کے دستخط گورنر کو پیش کیے اور بات بن گئی ،
نتیش کمار اس سے قبل پہلی بار ۳؍ مارچ ۲۰۰۰ء سے ۱۰؍ مارچ ۲۰۰۰ء تک ، دوسری بار ۲۴؍ نومبر ۲۰۰۵ء سے ۲۴؍ نومبر ۲۰۱۰ء تک ، تیسری بار ۲۶؍ نومبر ۲۰۱۰ء سے ۱۷؍ مئی ۲۰۱۴ء تک ، چوتھی بار ۲۲؍ فروری ۲۰۱۵ء سے ۱۹؍ نومبر ۲۰۱۵ء ، پانچویں بار ۲۰؍ نومبر ۲۰۱۵ء سے ۲۶؍ جولائی ۲۰۱۷ء ، چھٹی بار ۲۷؍ جولائی ۲۰۱۷ء سے ۱۶؍ نومبر ۲۰۲۰ء ، ساتویں بار ۲۵؍ نومبر ۲۰۲۰ء ۹؍ اگست ۲۰۲۲ء تک وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں، اس درمیان میں صرف ایک بار انہوں نے استعفا ء جیتن رام مانجھی پر اعتماد کرکے انہیں وزیر اعلیٰ بنا دیا تھا، ان کا خیال تھا کہ چہرہ مانجھی رہیں گے اور حکومت پر دے کے پیچھے سے وہ کریں گے ، لیکن جلد ہی مانجھی کو وزیر اعلیٰ ہونے کا احساس ہو گیا اور سمبلی میں عدم اعتماد تحریک پر ووٹنگ ہونے سے پہلے ہی مانجھی کواستعفیٰ دے دینا پڑا تھا، نتیش کمار مانجھی کو وزیر اعلیٰ بنا کر ’’لالو ازم‘‘ والی سیاست کرنا چاہتے تھے، لیکن وہ بھول گیے تھے کہ لالو نے اپنی بیوی رابڑی دیوی کو وزیر اعلیٰ بنایا تھا کہ جب بھی وہ مانگ میں سندور لگائے لالو ان کے دل ودماغ میں سماتے رہیں اور وہ حکومت پر قبضہ کی سوچ بھی نہ سکیں، مانجھی جی میں ایسی کوئی بات نہیں تھی ، اقتدار ملا تو وہ نتیش جی کے احسان کو بھول گیے اور اپنی راہ چل پڑے، جس کی تلافی وہ آج تک نتیش جی کی حمایت کرکے کر رہے ہیں۔
حکومت تو بن گئی ہے ، لیکن درد سر کم نہیں ہے، مہنگائی عروج پر ہے ، بے روزگاری دور کرنے کا تیجسوی کا وعدہ قدیم ہے، اقلیتوں سے متعلق اداروں میں عہدیدار برسوں سے غائب ہیں، ڈبل انجن کی سرکار میں دونوں طرف جو کھینچ تان تھی ، اس
کی وجہ سے کام کاج ٹھپ پڑا ہوا تھا، نئی حکومت کس طرح اس پر قابو پائے گی عوام کی نگاہ اس پر ٹکی رہے گی ، فی الوقت تو نئی حکومت کے لیے نیک خواہشات اور ڈھیر ساری دعائیں۔