غیر مسلم اداروں میں پڑھنے والے بچوں اور بچیوں کو والدین یہ بھی سمجھائیں!

تحریر : خالد سیف اللہ صدیقی

ابھی ایک ویڈیو دیکھ رہا تھا۔ خدا جانے کہاں کی ہوگی۔ ویڈیو شروع ہوئی ، تو دکھایا گیا کہ بہت سی بچیاں صف بستہ ہیں ، اور ایک ایک کرکے ایک میڈم کے پاس سے گزر رہی ہیں۔ دکھایا گیا کہ جب بچی میڈم کے پاس پہنچتی ہے ، تو میڈم ہندوانہ انداز میں اس کی پیشانی پر ٹیکا لگاتی ہے۔ قابل دید بات یہ تھی کہ ان ہندو اور ہندو نما کھلے سر بچیوں کے درمیان لائن میں ایک سر کو باقاعدگی سے ڈھکی ہوئی مسلم بچی بھی کھڑی تھی۔ یہ منظر دیکھ کر مجھے بڑا غصہ آیا۔ سوچا یہ کیا ہو رہا ہے‌! یہ در اصل ایک اسکول کا منظر نامہ تھا۔ اب اس لڑکی کا بھی نمبر آچکا تھا۔ اب وہ لڑکی تھی ، اور وہ میم۔ میں نے سوچا کہ لمحے میں اس لڑکی کا اسلامی غیرت کا مظاہرہ کرتا چہرہ بھی کفریہ نشان کا مظہر ہو جائے گا ؛ لیکن واہ ری بنتِ اسلام! جب اس لڑکی کا نمبر آیا ، تو اس نے سر کے اشارے سے میم سے اپنی پیشانی پر ٹیکا نہ لگوانے کا عندیہ دیا ، اور چہرے پر مسکان بکھیرتی آگے نکل گئی۔ سچ پوچھیے تو لڑکی کے اس مومنانہ رد عمل سے دل کو بڑا سکون ملا۔ بہت سی دفعہ ہوتا ہے کہ مسلم بچے اور بچیاں اسکول میں پڑھتے ہیں ، اور اسکول کالج والے جو جو ان بچوں اور بچیوں کو بولتے ، اور جو جو ان کو کرنے کو کہتے ہیں ، وہ وہ ، وہ کہتے اور کرتے ہیں۔ یہ واقعہ ایسے موقعوں کے لیے ایک مثال ہے۔ والدین و ذمے داران! اگر آپ بھی کسی مجبوری سے اپنے بچوں اور بچیوں کو غیروں کے اداروں میں ڈالے ہوئے ہیں ، تو میں آپ سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ اور وہ یہ کہ اپنے بچوں اور بچیوں کو کبھی سنجیدگی کے ساتھ اپنے پاس بٹھا کر سمجھائیے کہ : "بچو! آپ جس اسکول میں پڑھتے ہو ، اس کے پرنسپل اور استاذ اور ٹیچر وغیرہ غیر مسلم ہیں۔ وہ اللہ کو ، ہمارے نبی کو اور ہمارے قرآن کو نہیں مانتے۔ بچو! ہم نے آپ کو اس اسکول میں مجبورا بھیجا ہے ؛ کیوں کہ ہمارے پاس اس کے سوا اور کوئی اسکول نہیں تھا”۔ پھر کہیے کہ : "بچو! اگر اسکول میں آپ کے پرنسپل یا کوئی ٹیچر وغیرہ آپ کو کوئی ایسا کام کرنے کو کہے جو ہم مسلمان نہیں کرتے ، تو وہ کام مت کرنا۔ اگر کسی مورتی کے آگے ہاتھ جوڑنے یا اس کے سامنے ماتھا ٹیکنے کو کہے ، تو مت ٹیکنا۔ اگر پیشانی پر سیندور یا ٹیکا لگانا چاہے ، تو بھی مت لگوانا۔ اسی طرح اگر کبھی کوئی ایسی بات تم سے بلوانا چاہے ، جو ہم لوگ گھر میں نہیں بولتے ، تو وہ بھی اپنی زبان سے مت نکالنا۔ اپنے ٹیچر اور پرنسپل کو صاف منع کر دینا”۔ یہ میں نے اپنے طور پر کچھ نصیحتیں لکھ دی ہیں۔ والدین و ذمے داران ماحول اور حالات کے مطابق اسی طرح کی کچھ نصیحتیں اپنے بچوں اور بچیوں کو کریں ، اور موقع بہ موقع کرتے رہا کریں!_____امید ہے ، ان شاءاللہ! آپ کا یہ نصیحتیں کرنا رائے گاں نہیں جائے گا۔ اس کا ضرور اثر ہوگا۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے