تحریر: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سابق انچارج شعبۂ تبلیغ وتنظیم امارت شرعیہ چھوٹا ناگپور، ایڈ ہاک کمیٹی مسلم مجلس مشاورت رانچی کے کنوینر ، نامور عالم دین ، قائدانہ صفات سے مزین ، ملت کے لئے ہمیشہ سینہ سپر، مشہور ہو میو پیتھ معالج، معتدل نظریہ کے حامل ، اپنے مسلک پر عامل اور دوسروں کے سلسلے میں روا دار مولانا سید جمیل اختر حسینی نے چھیانوے (۹۶) سال کی عمر میں ضعف ونقاہت، پیرانہ سالی اور عمر کے مقررہ ایام ختم ہونے کے بعد ۹ ؍ جنوری ۲۰۱۸ء بروز منگل ، عشاء کی اذان کے وقت اپنے مکان نزد مسجد ابو بکر لاہ کوٹھی روڈ ، ہند پیڑھی رانچی میں داعیٔ اجل کو لبیک کہا۔ ۱۰؍ جنوری بروز بدھ بعد نماز ظہر سینکڑوں سوگواروں کی موجودگی میں مولانا صدیق مظاہری (جو اب خود بھی مرحوم ہو چکے ہیں) نے جنازہ کی نماز پڑھائی اور راتوروڈ قبرستان میں سپرد خاک کیے گیے، پس ماندگان میں چھ صاحب زادہ اور تین صاحب زادیوں کے ساتھ نواسے، نواسی اور پوتے پوتیوں سے بھرا گھر چھوڑا۔
مولانا جمیل اختر حسینی بن حافظ سید عبد المغنی بن عبد الحئی بن سید شاہ عبد الرحمن ؒ بن سید شاہ فرحت حسین کی ولادت موجودہ ضلع ویشالی اور سابق ضلع مظفر پور میں ہوئی ، اس خاندان کی رشتہ داری ویشالی ضلع کے چہرہ کلاں اورچپیٹھ ضلع ویشالی میں رہی ہے۔مولانا کی سسرال چک بہاؤالدین ضلع سمستی پور تھی۔
ابتدائی تعلیم آبائی گاؤں میں حاصل کرنے کے بعد مدرسہ قاسمیہ گیا، پھر کولکاتہ اور وہاں سے غالبا دار العلوم دیو بند تشریف لے گیے، غالبا اس لیے کہ دار العلوم سے فراغت یقینی معلوم نہیں، البتہ بعض قرائن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ دیو بند گیے، انہوں نے اپنی ایک کتاب سیرت سرور کونین کا انتساب حضرت مولانا حسین احمد مدنی کی طرف کیا ہے اورانہیں اپنا استاذ بتایا ہے، فراغت کے بعد مولانا نے مدرسہ کاشف العلوم مچھوا پھل منڈی اور ندائے اسلام کولکاتہ میں معلمی کے فرائض انجام دیے، ندائے اسلام مسجد کی امامت بھی آپ کے ذمہ تھی، حضرت مولانا قاری فخر الدین صاحب گیاوی ؒ کی تجویز پر کولکاتہ سے رانچی منتقل ہو گیے، جہاں دار القرآن میں انتظام وانصرام اور مدرسہ حسینہ کڈرو رانچی میں درس وتدریس سے وابستہ رہے، حواری مسجد کربلا چوک رانچی کی خطابت چالیس سال تک آپ کے ذمہ رہی۔ ملازمت، خطابت اور سماجی خدمات کے حوالہ سے آپ نے رانچی کو اپنا میدان عمل بنایا اور ۱۹۵۷ء سے مسلسل نقل مکانی کرکے رانچی کے ہو کر رہ گیے، ۱۹۶۷ء کے ہولناک فساد میں آپ نے جان ہتھیلی پر رکھ کر جو خدمت انجام دی اس کی وجہ سے رانچی کے مسلمانوں میں آپ کی مقبولیت ومحبوبیت میں اضافہ ہوا، آج بھی لوگ اس موقع سے مولانا کی جرأت مندی، دانائی، مؤمنانہ فراست، مدبرانہ قیادت اور دو ر اندیش سیاست کا چرچا کرتے رہتے ہیں، اس موقع سے امارت شرعیہ کی ریلیف ٹیم بھی وہاں حضرت مولانا سید نظام الدین صاحب ؒ امیر شریعت سادس کی قیادت میں پہونچی تھی، مولانا نے اس ریلیف ٹیم کا بھر پور تعاون کیا، امیر شریعت سادس اس کا اپنی مجلسوں میں تذکرہ کیا کرتے تھے۔
مولانا بڑے عالم تھے، ان کے ہم نشیں علوم وفنون میں ان کی مہارت کو’’ کسبی‘‘ نہیں ’’وہبی‘‘ اور علم لدنی کہا کرتے تھے، وہ مسلمانوں میں علوم دینیہ کی ترویج اور قرآن کریم صحت کے ساتھ لوگ پڑھیں اس کے لیے متفکر رہا کرتے تھے، چنانچہ ۱۹۶۱ء میں انہوں نے رانچی میں در القرآن کے نام سے ایک تعلیمی ادارہ قائم کیا ، اس ادارہ کو ترقی دینے کے لیے کئی مدرس بحال کیے، کیوں کہ اس زمانہ میں آپ مدرسہ عراقیہ رانچی میں صدر مدرس کے منصب پر فائز تھے، اس لیے وقت کابڑا حصہ ادھر لگانا پڑتا تھا، بعد میں دار القرآن کی طرف لوگوں کا رجوع شروع ہوا تو وہ ملت کے مسائل حل کرنے کا ایک مرکز بن گیا، تعلیم بھی جاری رہی اور ملت کو در پیش مسائل کا حل بھی مولانا نکالتے رہے۔
۱۹۶۴ء میں مسلم مجلس مشاورت کا اجلاس مولانا نے بڑے کر وفر سے رانچی میں منعقد کرایا، امارت شرعیہ سے بھی انہیں والہانہ عشق تھا، وہ امارت کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے، ۲۶؍ صفر ۱۴۱۶ھ کو اس وقت کے ناظم امارت شرعیہ مولانا سید نظام الدین صاحبؒ نے چھوٹا ناگپور ڈویزن خصوصا رانچی، جمشید پور، ہزاری باغ وغیرہ کا انچارج شعبۂ تبلیغ وتنظیم مقرر کیا تھا اور یہ تقرری امیر شریعت رابع حضرت مولانا منت اللہ رحمانی نور اللہ مرقدہ کے حکم پرہوئی تھی، اس حکم سے متعلق خط میں انہیں یکم ربیع الاول سے اس عہدے کی ذمہ داری سنبھالنے کو کہا گیا تھا، اور یہ بھی لکھا گیا تھا کہ فی الحال رانچی دفتر امارت شرعیہ کو مرکز بنا کر پورے حلقے میں کام کریں گے ۔ مولانا مرحوم نے امارت شرعیہ سے وابستگی کی وجہ سے ہی اپنی قیمتی لائبریری دفتر امارت شرعیہ رانچی کے حوالہ کرنے کی وصیت کی تھی۔
مولانا بہترین خطیب اور اچھے مصنف تھے، پہلے ہند پیڑھی کی مسجد اور پھر مسجد حوارئین میں چالیس سال تک خطاب فرمایا ، کئی لوگ تو ان کی تقریر سننے کے لیے ہی اس مسجد میں آکر نما زپڑھتے تھے، مولانا نے اپنی اس صلاحیت سے اصلاح معاشرہ کا بڑا کام لیا، رانچی میں آپ کے دوستوں کا ایک مخصوص حلقہ تھا، اور بڑی تعداد میں لوگ ان کی خدمات کے معترف اور مذہی بنیادوں پر ان کے معتقدتھے، مولانا ان لوگوں میں تھے جو ملت کو بہت کچھ دے کر اپنی کاخ فقیری میں خوش وخرم زندگی گذارتے ہیں۔ مولانا کے اثرات کو دیکھ کر سیاسی بازی گران پر ڈورے ڈالتے، مال ودولت کی پیش کش کرتے، لیکن یہ غیور، خود دار اور عامل شریعت اس کی طرف دیکھنا ،بلکہ تھوکنا بھی گوارہ نہیں کرتا۔
مولانا کو اللہ تعالیٰ نے تصنیف وتالیف کا جو مل
کہ عطا فرمایا تھا، اس سے بھی انہوں نے کام لیا، ان کی کتابیں سیرت سرور کونین، چہل حدیث، علامات قیامت، رسول اللہ کے معجزے، رسول اللہ کے اخلاق اور رسول اللہ کی دعائیں مشہور ومقبول ہیں، اور انسانوں کی زندگی سنوارنے کے لیے مفید ہیں۔
مولانا مرحوم سے میری کئی ملاقاتیں تھیں، ان کا وطن اصلی بیلا بھوساہی ہے، جہاں سے ہم لوگوں کا تعلق قدیم ہے، مولانا مرحوم کے کہنے پر حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام قاسمی ؒ نے عالی شان مسجدیہاں تعمیر کروائی تھی، ممکن ہے تعاون بعض دوسروں کا بھی رہا ہو، قاضی صاحب نے ہی وہاں امارت شرعیہ کا مکتب کھولوایا جو آج بھی جاری ہے، یہ سارا کام ان کے بھائی مظاہر الحسنین صاحب کی نگرانی میں ہوتا رہا ہے، مظاہر صاحب کا بھی انتقال تین سال قبل ہوگیا اللّٰہ مولانا مظاہرالحسینی کی بھی مغفرت فرمائے، رانچی میں مولانا سے کئی ملاقاتیں رہیں، بلکہ ان کی زندگی میں جب بھی رانچی جاتا تو ان سے ملاقات کے لیے وقت نکالتا، وہ اپنے چھوٹے سے کمرے میں کتابوں کے درمیان موجود ہوتے، ان کے پاس اخبارات کا بڑا ذخیرہ تھا اور کسی زمانہ میں وہ اخبارات کے تراشے جمع کیا کرتے تھے، بعض موقعوں سے انہوں نے مجھے بھی اس کی زیارت کرائی تھی، مولانا جس طرح دوسرے کام کرنے والے کی حوصلہ افزائی کیا کرتے تھے، میری بھی کرتے، میں نے محسوس کیا کہ ان کے پاس جانے، ان کے احوال سننے سے ملی کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کا جذبہ پیدا ہوتا تھا، اللہ تعالیٰ نے انہیں اپنے پاس بلا لیا، اور وہ اپنی تمام تر نیکیوں کے ساتھ اللہ کے پاس حاضر ہو گیے، اللہ رب العزت سے دعا ہے کہ وہ ان کی مغفرت فرمائے اور سیاٰت سے در گذر کرکے حسنات کے طفیل جنت کے اعلیٰ مقام میں جگہ دے۔ آمین یا رب العالمین