وسیع الفکر، بیباک، جفاکش اور ذی استعداد عالم دین و خطیب مولانا ڈاکٹر اقبال نیر صاحب مظاھری نہیں رہے

آفتاب ندوی
ناظم: جامعہ ام سلمہ دھنباد

ڈاکٹر صاحب چترا اور رانچی کے درمیان واقع بالوماتھ کے رہنے والے تھے ، تاریخ پیدائش 1958 ھے ، مظاھر علوم سہارنپور سے سن 79 میں سند فراغت حاصل کی ، اسکے بعد طبیہ کالج دیوبند سے بی یو ایم ایس کا کورس مکمل کیا ،فراغت کے بعد اپنے وطن بالو ماتھ میں باقاعدہ مطب کرنے لگے ، ایک کامیاب معالج کی حیثیت سے مقبولیت حاصل کی ، ملی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا ، آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ ، ملی کونسل اور امارت شرعیہ سے فعال وابستگی رھی ، سیاست سے بھی دلچسپی تھی ، مسلم بچوں کی تعلیم وتربیت اور انہیں آگے بڑھانے کی مقدور بھر کوشش کرتے ، ایک مدرسہ بھی قائم کیا اور اسکا تعلیمی الحاق ندوۃ العلماء سے کروایا ، ملک کے تمام بڑے اداروں ، انکے ذمہ داروں اور مقتدر علماء اور مشائخ سے ڈاکٹر صاحب کا تعلق تھا ، مولانا علی میاں صاحب سے انہیں بڑی مناسبت تھی ، ان سے باقاعدہ بیعت کاتعلق بھی تھا ، مولانا علی میاں ندوی رح کی کتابوں کے عاشق تھے ، انکی فکر اور انکی گفتگو میں اسکا اثر ظاھر ھوتا تھا ، ملک اور بہارو جھارکھنڈ کی تمام قابل ذکر سرگرمیوں میں پیش پیش رہتے تھے ، مولانا عامر رشادی صاحب کی علماء کونسل کے تعارف کیلئے جہارکھنڈ کے بیشتر علاقوں کا طوفانی دورہ کیا ، ان تمام سرکرمیوں اور مشغولیتوں کے ساتھ تدریس کا بھی ذوق تھا یہاںتک کہ رشید العلوم چترا میں اوپر کے کلاسوں میں کئ سالوں سے حدیث شریف پڑھا رھے تھے ، ادھر چندسالوں میں انکے قلم سے تین کتابیں بھی منظر عام پر آئیں ، ایک کتاب سیرت نبوی پر ھے جبکہ دوکتابوں کا تعلق مولانا رحمت اللہ خلیفہ مولانا عبد الرشید رانی ساگری اور حضرت جی سے مشہور مولانا ذوالفقار صاحب کے حالات زندگی سے ھے ، مولانا اپنے ڈیل ڈول اورقدو قامت میں جس طرح بڑے بڑے مجمعوں میں نمایاں نظر آتے اسی طرح وہ اپنی شرافت واخلاق ، تواضع وانکساری ، سادگی اور مرنجا مرنج طبیعت کی وجہ سے بھی طبقۂ علماء میں منفرد تھے ، اپنے چھوٹوں کو بھی عزت دیتے ، ھر اچھے کام میں تعاون کیلئے تیار رہتے ، بغیر منصب و عہدہ کے بھی خندہ پیشانی سے ذمہ داریوں کو نبھاتے ، چند سالوں سے ھارٹ کے مریض ھوگئے تھے ، یہانتک کہ یہی مرض انتقال کاسبب بن گیا اور 18مارچ 2022مطابق 14شعبان 1443ھجری جمعہ کی رات تقریبا ڈیڑھ بجے رانچی کے ایک ھاسپٹل میں آخری سانس لی (انا للہ وانا الیہ راجعون ) جمعہ کے بعد وطن بالو ماتھ میں جنازہ کی نماز مرحوم کے حافظ صاحبزادے ۔۔۔۔۔۔۔ نے پڑھائی ، کافی بڑی جماعت تھی ، دور دراز کے علاقوں سے بھی معتدبہ تعداد میں لوگ پہنچے تھے۔
دعاء ھے کہ اللہ قبر کو نور سے بھر دے ، نیکیوں کو شرف قبولیت سے نوازے ، خطاؤں سے درگزکرکے جنت الفردوس میں اعلی مقام عطاء کرے ، اور جملہ متعلقین کو صبر جمیل کی دولت دے ۔ آمین یارب العلمین