ماہ رمضان: غریبوں کی آسانی کا بہترین سامان

تحریر: محمد کوثر رضا مصباحی
رمضان المبارک اسلامی سال کا نواں مہینہ ہے اور یہ بقیہ تمام مہینوں میں افضل اور متبرک و مقدس مہینہ ہے_ یہ بابرکت مہینہ اپنے تمام تر فیوض و برکات، انواروتجلیات اور محاسن و کمالات کے ساتھ ہم پر پر سایہ فگن ہے_ جس وقت میری یہ تحریر آپ کے زیر نظر ہوگی اس وقت آپ اللہ کی رحمتوں اور برکتوں سے مالا مال ہو کر مغفرت کے دروازے پر قدم رکھ چکے ہوں گے_ یعنی عشرہ رحمت گذرکر عشرہ مغفرت شروع ہوچکا ہوگا اور آپ کو اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ان کی مغفرت کرانے کا ایک سنہرا موقع بھی مل چکا ہوگا_ رمضان کی خاصیت ہے کہ جیسے ہی اس ماہ مبارک کا چاند طلوع ہوتا ہے عالم اسلام میں خوشیوں کی لہر دوڑ پڑتی ہے، روزے داروں کے چہروں میں قدرتی نور پیدا ہو جاتا ہے، فرحت و انبساط اور مسرت و شادمانی کا خوشگوار ماحول ہوتا ہے، ہر چہار جانب رونق ہی رونق ہوتی ہے، شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیے جاتے ہیں، آسمان اور جنت کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں، جہنم کے دروازے بند کر دیے جاتے ہیں، دن میں روزے اور رات میں قیام کیا جاتا ہے؛ ذکر و اذکار، اوراد و وظائف اور تلاوت قرآن کا خاصہ اہتمام کیا جاتا ہے اور بالخصوص اس ماہ مقدس میں غریبوں، مفلسوں، یتیموں اور حاجت مندوں کی ضرورتیں حسب لیاقت پوری کی جاتی ہیں_جب مسئلہ غریبی اور مفلسی کا چھڑ ہی گیا ہے تو لگے ہاتھ اس پر کچھ باتیں عرض کرتا چلوں. 
      آپ لوگ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ ہر دور اور ہر زمانہ میں غربت کا انسانیت کے ساتھ اٹوٹ رشتہ اور گہرا تعلق رہا ہے_ تاریخ کے اوراق ایسی درد بھری کہانیوں سے بھرے پڑے ہیں جن کا وجود غریبی اور مفلسی کی وجہ سے ہوا کسی کو چوری چکاری، لوٹ کھسوٹ اور ڈاکہ زنی و غنڈہ گردی جیسے معیوب کام کرنے پر مجبور کردیا تو کسی کو موت کے دہانے پر لاکر کھڑا کردیا_ آج بھی سماج کے بیشتر طبقے ایسے ہیں جو غریبی اور تنگدستی کے شکار ہیں_ غریبوں، فقیروں، مسکینوں اور بیواؤں کی بہت سی ایسی جماعتیں ہیں جو مشکل سے دو وقت کے کھانے کا انتظام کر پاتی ہیں_ نہ جانے کتنے ہی ایسے مزدور ہیں جو شبانہ روز خون پسینہ بہا کر بڑی مشکل سے اپنے اور اہل خانہ کے پیٹ کی آگ کو بجھا پاتے ہیں_ اس سے بڑی تکلیف کی بات یہ کہ جب سے عالمی وبا "کرونا وائرس”(Covid-19)معرض وجود میں آیا ہے ایسے لوگوں کے اعدادوشمار میں کافی اضافہ ہونے لگا ہے_ وائرس کے بڑھتے خطرات کو دیکھتے ہوئے جہاں دنیا کے دیگر بڑے بڑے ممالک میں تالا بندی نافذ کردی گئی وہیں ہندوستان میں بھی اچانک اس کا اعلان کر دیا گیا_ پھر کیا تھا! کسب معاش کے سارے وسائل ختم ہوگئے، آمدنی کے ذرائع ایک دم تھم سے گئے، غریبوں اور مزدوروں کے دل تیزی سے دھڑکنے لگے، فقیروں کی جھولیاں خالی ہوگئیں، بیواؤں کا سہارا ختم ہوگیا، یتیم بچے امیروں کے محلات کو حسرت بھری نگاہوں سے تکنے لگے؛کچھ لوگوں نے لاچار اور مجبور ہوکر پریوار سمیت خودکشی کرلی تو کئی لوگوں نے محض بھوک کی وجہ سے اپنا دم توڑ دیا_ایسے میں کچھ سیاسی، سماجی اور رفاہی تنظیموں نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اہم قدم اٹھایا اور ضرورت مندوں کی امداد کی_(جو یقینا قابل مبارکباد ہیں) لیکن ابھی بھی یہ امداد نامکمل اورناقابل کافی ہیں، کیوں کہ لاک ڈاؤن کے چالیس دنوں کے گزرنے کے بعد حالات ایسے ناگفتہ بہ ہوگئے ہیں کہ سینکڑوں لوگ فٹ پاتھ پر سوتے اور کچڑے کے ڈبوں میں اپنا کھانا تلاش کرتے ہیں، نامعلوم کتنے ہی ایسے غربا ہیں جن کی امیدیں اپنے محلے کے مالداروں سے وابستہ ہیں، بہت سے ایسے اوسط طبقے کے ضرورت مند لوگ ہیں جنہیں کھانے پینے کے لالے پڑ گئے ہیں اور خودداری و عزت نفس کو ملحوظ رکھتے ہوئے مدد کی طلب سے قاصر ہیں_ ایسے میں وہ اپنا حال دل سنائیں تو سنائیں کسے؟ ایسے نازک ماحول میں رمضان المبارک کے اس مقدس مہینہ میں ہم سب کی یہ دینی، ملی، سماجی، معاشرتی اور اخلاقی ذمہ داری بنتی ہے کہ ایسے غریب طبقوں کی حتیٰ المقدور امداد کریں، جو صاحب استطاعت اور صاحب ثروت ہیں وہ اپنے مالوں کی زکات نکال کر ان کے مستحقین تک پہنچائیں اور خطہ مفلسی سے نیچے جا چکے لوگوں کا سہارا بن کر انہیں جینے کا موقع فراہم کریں، اپنے محلے کے لوگوں کا خیال رکھیں کہیں ایسا تو نہیں کہ آپ شکم سیر اور آسودہ ہو کر بستر استراحت پر آرام فرما رہے ہوں اور آپ کا پڑوسی بھوکا پیاسا پیٹ پر پتھر باندھ کر سو رہا ہو، کیوں کہ خود کے لیے جینا بھی کوئی زندگی ہے! زندگی تو وہ ہے جو سب کے لئے جیا جائے اور سب کو بھائی بھائی تصور کیا جائے_ چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالی نے "انما المؤمنون اخوۃ”(الحجرات،آیت:١٠) "سارے مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں” فرما کر ایمان کو اصل اور جڑ قرار دیا بھائی بھائی ہونے کا_ مطلب واضح ہے کہ اگر غربا و مساکین صاحب ایمان ہیں تو ہمارے بھائی ہیں، جیسے ہم اپنے سگے بھائی کی خوشیوں میں خوش ہوتے ہیں اور مصیبت کے وقت ان کی آواز پر لبیک کہتے ہیں ویسے ان کے ساتھ بھی برتاؤ کیا جائے_  اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: "واللہ فی عون العبد ماکان العبد فی عون اخیہ”(صحیح مسلم) "اللہ تع

الی اس وقت تک اپنے بندہ کی مدد فرماتا ہے جب تک وہ اپنے بھائی کی مدد میں رہتا ہے_” یعنی بندہ اپنے مومن بھائی کی جیسی مدد کرے گا اللہ تعالی ویسی اس کی مدد فرمائے گا_ مثلاً اگر کوئی شخص اپنے خون پسینہ کی کمائی ہوئی دولت سے کسی غریب کی تنگ دستی کو دور کرے تو اللہ تعالی اس کی دولت میں بے پناہ برکت عطا فرمائے گا_ رمضان کے ان دنوں میں ہمارے ہاں کا معمول ہے کہ افطار کی بڑی بڑی پارٹیاں دی جاتی ہیں، قسم قسم کے لذیذ اور عمدہ اشیاے خوردونوش سے دسترخوان کو سجایا جاتا ہے_ (جو بہت اچھی اور خوشی کی بات ہے)لیکن افسوس صد افسوس! جنہیں ایسی دعوتوں کی سخت ضرورت ہوتی ہے ان سے کنارہ کشی کرتے ہوئے صرف مالدار حضرات کو بلایا جاتا ہے جو کہ بہت ہی شرم کی بات ہے_ ہمیں چاہیے کہ خلوص للہیت کے ساتھ ایسی پارٹیوں میں جہاں اپنے دوست و احباب اور اونچے طبقہ کے لوگوں کو بلائیں وہیں غریب بھائیوں کا بھی خوب خیال رکھیں اور ثواب کے مستحق بنیں، کیوں کہ جو شخص روزے داروں کو افطار کراتا ہے اللہ تعالی اس کو ان کے برابر ثواب اور جہنم کی آگ سے نجات کا پروانہ عطا فرماتا ہے_ اسی حوالے سے ایک حدیث حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: "میں نے ایک شخص کو دیکھا، وہ جنت میں بڑے مزے سے گھوم پھر رہا تھا، اس کی نیکی یہ تھی کہ اس نے راہ گیروں کے لیے تکلیف کے باعث راستے میں کھڑا ایک درخت کاٹ کر دور کردیا تھا_”(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ، باب فضل ازالۃ الاذی عن الطریق) ذرا سوچیے! کہ راستہ میں پڑی تکلیف دہ چیز کے ہٹانے سے (جس نے ابھی تک کسی انسان کو نقصان تک نہیں پہنچایا ہے) اللہ تعالی اس شخص کو جنت جیسی عظیم نعمت عطا کرسکتا ہے، تو اندازہ لگائیے! وہ شخص جو اپنی دولت سے کسی غریب کی پریشانیوں کو دور کرکے اسے خوش کرے تو اللہ تعالی ایسے شخص کو کس قدر اہم ترین انعام و اکرام سے نوازے گا_

    اللہ تعالی ہم سب کو کار خیر میں دامے، درمے، سخنے، قدمے ہر طرح سے حصہ لینے کی توفیق عطا فرمائے۔  آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے