مدارس اسلامیہ کا تعلیمی مزاج

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

مدرسہ کی تعلیم کا ایک مزاج ہے، اس تعلیم کے کچھ مقاصد ہیں، ان مقاصد اور مزاج کو ترک کرکے مدرسہ اپنی حیثیت کھو دے گا ، اور دوسرے علوم کے میدان میں لگ جا نے کی وجہ سے کم از کم ان مقاصد سے دورہو جائے گا ، جس کے لیے اسے قائم کیا گیا تھا، اس مسئلہ کو اس نقطہ ٔ نظر سے بھی سمجھنے کی ضرورت ہے کہ راجندر سنگھ سچر کمیٹی کی رپورٹ بتاتی ہے کہ جتنے مسلم لڑکے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان میں صرف چار فی صد وہ ہیں جومدارس میں پڑھ رہے ہیں، چھیانوے فی صد لڑکے کالج ، اسکول اور یونیورسیٹیوں میں پڑھتے ہیں، ان کو پڑھانے والے وہ ہیں جو دانشوروں کی اصطلاح میں ٹرینڈ ہیں، انہیں سرکار اس کام کے لئے موٹی تنخواہیں دیا کرتی ہے، یہ چھیانوے فی صد مسلم طلبہ جنہیں روزی روٹی کے لیے پڑھایا جاتا ہے، یہ فارغ ہو کر پیشہ وارانہ کاموں کے لیے موٹی موٹی رقم لیا کرتے ہیں،پھر بھی وہ مسلمانوں کی معاشی بد حالی دور کرنے میں ناکام ہیں ، مسلمان آج بھی مفلسی اور پس ماندگی کی زندگی گذار رہا ہے، پھر بھلا ان چار فی صد کو بھی انہیں کاموں میں لگا دیا گیا تو کون سا انقلاب آجائے گا ،ا ور پھر جب سارے علوم میں اسپسلائزیشن اور تخصص کو ضروری سمجھا جا رہا ہے تو پھر دینی علوم میں ان چار فی صد کو تخصص کے لیے کیوں نہیں چھوڑا جاتا ، یہ ہماری مذہبی ضرورت ہے، ان سے مسجدکے منبر ومحراب آباد ہیں، گاؤں کے گاؤں اور محلوں کے محلوں کا سروے کر لیجئے، ایک آدمی ایسا نہیں ملے گا، جو کسی دوسرے کام سے لگا ہوا ہو اور پابندی سے مسجد کی امامت اور بچوں کی بنیادی دینی تعلیم کے لیے وقت نکال رہا ہو ، اپنی نماز پڑھ لینا اور بات ہے یہ تو اپنی ذمہ داری ہے، اس سے ملت کا کیا فائدہ ہو رہا ہے، ہاں نماز پڑھا نے کی ذمہ داری قبول کرنا ضرور ملی کام ہے، اگر ان چار فی صد کو بھی دوسرے کام میں لگا دیا گیا تو مسجدکے منبر ومحراب کے لیے مستقل اماموں کا مسئلہ کھڑا ہوگا اور یہ بڑا ملی نقصان ہوگا ، ہمارا دانشور طبقہ ان کی معاشی حالت کو لے کر بھی سوال اٹھاتا رہتا ہے، ان دانشوروں سے پوچھا جانا چاہیے کہ کمیٹیوں میں تو آپ ہی لوگ غالب ہیں، پھر ان کے مقام ومرتبہ کے اعتبار سے ان کو تنخواہیں کیوں نہیں دیتے تو بغلیں جھانکنے لگیں گے ۔