تحریر: محمد ہاشم القاسمی
خادم دارالعلوم پاڑا ضلع پرولیا مغربی
فون نمبر: 9933598528
مشہور و معروف اسلامی اسکالر اور جماعت اسلامی کے سابق امیر مولانا جلال الدین عمری کا جمعہ کی شام انتقال ہو گیا۔ ان کا علاج دہلی کے الشفاء اسپتال میں چل رہا تھا، جماعت اسلامی ہند کے ٹوئٹر ہینڈل سے دی گئی اطلاع کے مطابق انتقال تقریباً 8.30 بجے ہوا۔ موصولہ اطلاع کے مطابق نمازِ جنازہ ہفتہ کی صبح 10 بجے مسجد اشاعت اسلام، دعوت نگر، دہلی میں ادا کی جائے گی، اور تدفین شاہین باغ قبرستان میں کی جائے گی. انا للہ وانا الیہ راجعون ۔
مولانا جلال الدین عمری عالم اسلام کے جید عالم دین ، بہترین خطیب ، ممتاز محقق اور مصنف تھے ۔ مولانا کی پیدائش 1935 میں ضلع ناروکاٹ ، تملناڈو میں ہوئی ۔ قرآن و حدیث و تفسیر پر گہرا عبور رکھتے تھے .
2007ء سے 2019ء تک آپ جماعت اسلامی ہند کے امیر رہے ۔ آپ ہندوستان کی تحریک اسلامی کے چوٹی کے رہ نماؤں میں سے ایک ہیں۔ دعوتی اور تحریکی سرگرمیوں میں انتہائی مصروف رہنے کے باوجود اسلام کے مختلف پہلوئوں پر آپ کی بیش قیمت تصانیف آپ کی عظمت وقابلیت کا زبردست ثبوت ہیں۔ مولانا جلال الدین عمری رحمۃاللہ علیہ جماعت اسلامی ہند کے سابق امیر رہے ہیں، اسی طرح جامعۃ الفلاح بلریا گنج کے سربراہ بھی رہے ہیں، اس کے علاوہ بہت سی دینی وملی تنظیموں اور اداروں کے ذمہ دار بھی رہے ہیں۔
مولانا جلال الدین عمری رحمۃاللہ علیہ کی ابتدائی تعلیم گاؤں ہی کے اسکول میں ہوئی ۔ پھر عربی تعلیم کے لیے جامعہ دارالسلام عمر آباد تشریف لے گئے وہاں داخلہ لے کر 1954ء میں فضیلت کا کورس مکمل کیا۔ اسی دوران مدراس یونیورسٹی کے امتحانات بھی دیے اور فارسی زبان وادب کی ڈگری ’منشی فاضل‘ حاصل کی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے بی اے (اونلی انگلش) پرائیوٹ سے پاس کیا۔
آپ نہایت وجیہ ، خوبصورت ،حسین و جمیل ،اور بہترین قد و قامت والی شخصیت کے مالک تھے، روشن و تابناک چہرہ ، کشادہ پیشانی ، رنگ گورا ، نورانی و چمکدار آنکھیں ، چہرے پرگھنی شرعی ڈاڑھی ،صاف و شفاف دانت، نرم و ملائم ہاتھ،سینہ درمیانی کشادہ ، متوسط و نرم و لطیف رفتار ، گفتگو کا شاندار اور پُر کشش انداز ، نپے تلے اور پُر معانی الفاظ ، اپنی تہذیبی روایات اور اقدار کے لحاظ سے نہایت خلیق ، وضعدار، حلیم مزاج ، نہایت شریف النفس ، غریب پرور و ہمدرد،سادگی پسند،کے علاوہ بے شمار ظاہری و باطنی صفات کے حامل انسان تھے، حضرت مولانا اپنی ذات میں ایک انجمن،ایک تحریک،ایک عنوان،ایک منزل،ایک قیادت اور ایک عہد تھے۔
آپ بیک وقت کئی اہم اور کلیدی عہدوں پر فائز تھے جماعت اسلامی ہند کے سابق صدر۔ آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے نائب صدر ہیں، الہیئۃ الخیریۃ العالمیۃ کے سابق رکن بھی رہ چکے ہیں۔جامعۃ الفلاح بلریا گنج اعظم گڑھ کے شیخ الجامعہ تھے ۔اس کے علاوہ درج ذیل عہدے آپ کے سپرد رہے.
مینیجنگ ڈائرکٹر سراج العلوم نسواں کالج علی گڑھ، نائب صدر آل انڈیا مسلم پرسنل لاء بورڈ، ممبر مسلم مجلس مشاورت، صدر اشاعت اسلام ٹرسٹ دہلی، صدر دعوت ٹرسٹ، رکن اسلامک پبلیکیشنزوغیرہ۔
جماعت اسلامی ہند کے شعبۂ تصنیف وتالیف (موجودہ ادارۂ تحقیق وتصنیف اسلامی) سے وابستہ ہوکر علمی وتصنیفی خدمات انجام دیں۔ اب تک شائع ہونے والی کتابوں کی تعداد تین درجن کے قریب ہے۔ مولانا کے بہت سے مضامین اور مقالات جرائد و رسائل کی زینت بنتے رہتے ہیں، بعض مقالات تو اہل علم میں بطور خاص مقبول ہوئے اور عظیم مصنف علامہ ماہر القادری رحمۃاللہ علیہ اور مفکر اسلام حضرت مولانا ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ جیسے بلند پائے عالم دین نے اس پر مبارک باد پیش کی اور اپنی پسندیدگی کا اظہار کیا.
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی کی جانب سے مولانا سید جلال الدین عمری کو چودھواں شاہ ولی اللہ ایوارڈ سے نوازا گیا، اس موقع پر، جناب نکہت حسین رفیقِ انسٹی ٹیوٹ نے ڈاکٹر محمد منظور عالم چیئرمین انسٹی ٹیوٹ کا تیار کردہ سپاس نامہ پڑھا تھا، پھر سپاس نامہ ، اعزازیہ (ایک لاکھ روپے چیک کی شکل میں) اور مومنٹو مولانا کی خدمت میں پیش کیے گئے تھے، اس کے بعد مولانا کو اظہارِ خیال کی دعوت دی گئی تھی اس وقت مولانا نے اپنی گفتگو میں موجودہ دور میں دعوتِ دین کی ضرورت و اہمیت اور تقاضوں پر روشنی ڈالی تھی انھوں نے فرمایا تھا کہ” قرآن مجید میں دعوتِ انبیاء کے ذیل میں ‘لسانِ قوم’ کی اہمیت بیان کی گئی ہے، آج ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم جن لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرنا چاہتے ہیں، ان کی زبان ، اسلوب ، رویّوں اور طور طریقوں سے اچھی طرح واقف ہوں، اس کے بغیر دعوت کا کام کما حقّہ انجام نہیں دیا جاسکتا ہے”.
انسٹی ٹیوٹ آف آبجیکٹیو اسٹڈیز نئی دہلی ایک معروف اور باوقار علمی و تحقیقی ادارہ ہے، اس نے مختلف تہذیبی ، سماجی ، سیاسی ، علمی ، تاریخی موضوعات پر اعلٰی معیار کی تقریباً پانچ سو (500) تحقیقی کتابیں شائع کی ہیں ، دیگر زبانوں کی بہت سی کتابوں کا اردو میں ترجمہ کروایا ہے ، کئی معیاری تحقیقی مجلات وہاں سے شائع ہورہے ہیں، وقتاً فوقتاً قومی اور بین الاقوامی سمینار ، سمپوزیم اور ورک شاپس بھی اس کی جانب سے منعقد ہوتے ہیں، انسٹی ٹیوٹ نے دو ایوارڈس کا سلسلہ شروع کیا ہے : ایک لائف ٹائم اچیومنٹ ایوارڈ ، دوسرا شاہ ولی اللہ ایوارڈ، اوّل الذکر ایوارڈ سات (7) اور شاہ ولی اللہ ایوارڈ تیرہ (13) نام ور شخصیات کو دیا جاچکا ہے _ ایوارڈ پانے والوں میں مولانا سید ابو الحسن علی ندوی رحمہ اللہ علیہ ، مولانا محمد شہاب الدین ندوی رحمہ اللہ علیہ ، پروفیسر محمد نجات اللہ صدیقی ، قاضی مجاہد الاسلام قاسمی رحمۃاللہ علیہ ، مولان
ا سید محمد رابع حسنی ندوی ، پروفیسر طاہر محمود ، پروفیسر محمد یٰسین مظہر صدیقی ندوی، مولانا تقی الدین ندوی اور پروفیسر عبید اللہ فہد فلاحی خصوصیت سے قابلِ ذکر ہیں، ان حضرات کو علوم و فنون کے مختلف میدانوں میں نمایاں خدمات انجام دینے پر ایوارڈ سے نوازا گیا ہے.
مولانا جلال الدین عمری کا شمار عصر حاضر کے بڑے عالم دین میں ہوتا تھا، فی الوقت جماعت اسلامی ہند کی شرعیہ کونسل کے چیئر مین تھے۔
مولانا جلال الدین عمری بیرون ملک کے مختلف دینی اداروں اور تنظیموں کی دعوت پر سعودی عرب، کویت، متحدہ عرب امارات، ایران،ترکی، برطانیہ، پاکستان اور نیپال کے سفر کرچکے ہیں۔
ان سانحہ ارتحال پر یوں تو ملک اور بیرون ملک کے علماء کرام اور تنظیموں کے ذمہ داران کے تعزیتی پیغام لگاتار موصول ہو رہے ہیں تاہم ہندوستان میں مسلمانوں کی سب سے بڑی نمائندہ تنظیم جمیعۃ علماء ہند کے صدر حضرت مولانا سید محمود اسعد مدنی نے مولانا جلال الدین عمری کے انتقال پر ملال پر گہرے رنج و الم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ” موصوف علم، تدبر، فکر و دانائی اور اعلیٰ اخلاق کے مالک تھے جماعت اسلامی ہند کے اپنے دس سالہ دور امارت میں ملی کاز کے لئے اجتماعیت کی صدا پر ہمیشہ لبیک کہا دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت فرمائے اور جنت الفردوس میں جگہ عطا فرمائے آمین ” مولانا عمرین محفوظ سکریٹری مسلم پرسنل لاء بورڈ نے فرمایا کہ” مولانا جلال الدین عمری صاحب ملک کے ممتاز عالم دین، بہترین مصنف، اچھے خطیب اور ملت اسلامیہ کے رہنما تھے، ان کی رحلت سے ملک و ملت کا بڑا نقصان ہوا ہے، ان کے اہل خانہ کی خدمت میں تعزیت مسنونہ پیش ہے اور تمام اہل ایمان سے ان کے لئے دعائے مغفرت کی درخواست ہے "
مولانا اپنی عمر کے 88 برس پورے کرکے،طویل علالت کے بعد ہمیں چھوڑ کر چلے گئے۔ان کی اہلیہ کا انتقال گزشتہ سال ہوچکا تھا۔اس وقت وہ اپنی بیوہ بیٹی کے گھر پر مقیم تھے۔ان کی بیٹی پروفیسر محمد رفعت سابق امیر حلقہ دہلی کی زوجہ ہیں۔رفعت صاحب کا انتقال کرونا وبا کے دوران ہوگیا تھا۔یہ بھی حسن اتفاق ہے کہ 26اگست (1941)جماعت اسلامی کا یوم تاسیس بھی ہے اور26اگست(2022)آپ کا یوم وفات ہے۔
آپ کی وفات حسرت آیات سے یقیناً ایک بڑا خلا پیدا ہوا ہے جس کا پر ہونا ماضی قریب میں بظاہر مشکل معلوم ہوتا ہے،مگر یہ دنیا ہے یہاں تو جانے کے لئے ہی آنا ہوتا ہے. آسماں تیری لحد پہ شبنم افشانی کرے۔