ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس این وی رمن جلد ہی اپنے عہدے سے سبکدوش ہونے والے ہیں، اپنے طویل پیشہ دارانہ تجربات کی وجہ سے ہندوستان میں عدلیہ سے جس طرح اعتماد اٹھتا جا رہا ہے ، اس سے وہ کافی فکر مند ہیں، انہوں نے عدلیہ سے اعتماد کھونے کو جمہوریت کی بقا کے لیے خطرہ قرار دیا اور اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت پرزور دیا کہ عوام کا بھروسہ عدلیہ سے نہ اٹھے، اس کے لیے ضروری ہے کہ جج اور وکلاء مل کر زیر التوا مقدمات میں جلد انصاف فراہم کرائیں، ان کی رائے ہے کہ وکلاء کو عدالت کے علاوہ معاشرہ میں تبدیلی کے لیے بھی کام کرنا چاہیے، اس لیے کہ معاشرہ کے پُر امن اور متحد ہونے کی صورت میں ترقی کا عمل آسان ہوتا ہے، جسٹس رمن وجے واڑہ میں نو تعمیر شدہ کورٹ کمپلکس کے افتتاحی تقریب میں وکلائ، جج اور دانشوروں کے ایک مجمع سے خطاب کر رہے تھے۔
جسٹس رمن کی پوری تقریر کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ انہوں نے جو کہا سچ کہا اور سچ کے سوا کچھ نہیں کہا ہے، اس لیے کہ عدالتوں میں زیر التوا مقدمات کی تعداد دن بدن بڑھتی جا رہی ہے،پچاس (۵۰) مقدمات کا فیصلہ ہوتا ہے، تو سو (۱۰۰) نئے درج ہوجاتے ہیں، پارلیامنٹ کے حالیہ مانسون اجلاس میں ایک سوال کے جواب میں وزیر قانون نے بتایا کہ ملک بھر کی عدالتوں میں چار کروڑ تراسی لاکھ سے زائد مقدمات سماعت کے منتظر ہیں۔ چار کروڑ سے زائد نچلی عدالتوں میں اور سپریم کورٹ میں بہتر ہزار مقدمات پر اب تک کوئی کارروائی نہیں ہو سکی ہے۔
عدالتوں کے بعض فیصلے ضابطے اور قانون کے اعتبار سے جس قدر بھی اہم ہوں اور عدالتی وقار کے پیش نظر جس قدر اس کا احترام کیا جائے، عوام کے حلق سے نیچے نہیں اترپاتے، ایسے میں عوام یہ سمجھنے لگی ہے کہ عدلیہ پر حکمراں طبقہ کا سخت دباؤ ہے، اور فیصلے قانون کی پاسداری کے بجائے دباؤ کے نتیجے میں آ رہے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو یہ بھی کہتے ہیں کہ معاملات ومسائل پر فیصلے حکمراں کرتے ہیں، اور عدالت اسے قانونی زبان فراہم کرتی ہے ، اس دباؤ کا اظہار کئی مرتبہ جج صاحبان کی زبانی بھی سامنے آچکا ہے، اس لیے عوام کی اس سوچ کو یکسر بے بنیاد بھی نہیں کہا جا سکتا۔
عدالت میں مقدمات کے التواء اور فیصلے میں تاخیر کی وجہ سے جمہوریت کو بڑا خطرہ لاحق ہے، اس کی وجہ سے قانو ن شکنی اور قانون کو اپنے ہاتھ میں لینے کے واقعات سامنے آ رہے ہیں، ریاستیں عدالت کے فیصلے کو نافذ کرنے میں آنا کانی کرتی ہیں اور اس کی منشا کے خلاف کبھی کبھی اس کے فیصلے رد بھی کر دیے جاتے ہیں، جیسا بلقیس بانو کے معاملہ میں ہوا، سپریم کورٹ نے مکان اور سرکاری ملازمت دینے کا ریاست کو حکم دیا تھا، جس پر عمل نہیں ہو سکا، اور اس کے بر عکس اجتماعی عصمت دری معاملہ میں عمر قید کے سزا یافتہ مجرمین کو گجرات حکومت نے چھوڑ دیا، اور چھ ہزار سے زائد دستخطوں سے جاری اس عرضی پر کوئی غور نہیں کیا گیا، جس میں مجرمین کو پھر سے سلاخوں کے پیچھے ڈالنے کی تجویز رکھی گئی ہے مجرمین بے خوف ہوکر گھوم رہے ہیں۔
ان حالات میں عدلیہ کو اپنا کردار غیر جانب دار ہو کر ادا کرنے کی ضرورت ہے، عدالت جمہوریت کا اہم ستون ہے، اگر اس پر سے بھی عوام کا اعتماد اٹھ گیا تو جمہوریت کے ساتھ، ملک کا بھی بڑا نقصان ہوجائے گا۔