خانگی تشدد میں خواتین کا کردار

ازقلم: محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ

خاندانی نظام اور خاندانی ڈھانچہ میں بیوی کی حیثیت مرکزی ہوتی ہے ، مرد کی قوامیت اپنی جگہ ، لیکن گھر پُر سکون رہ ہی نہیں سکتا ،اگر گھر کی خاتون بد سلیقہ، زبان دراز اور پھوہڑ ہو ، یہ بات عجیب سی لگتی ہے کہ جنوبی ایشیا کے ممالک جہاں خاندان میں مرد کو اہمیت دی جاتی ہے، مسلمان اور اسلامی ممالک جہاں’’اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلٰی النِّسَائِ‘‘ کی جڑیں بہت گہری ہیں وہاں بھی مردوں پر تشدد اور استحصال روز مرہ کی بات ہے، مغربی ممالک میں جو کچھ مردوں کے ساتھ ہو رہا ہے اس کا تو ذکر ہی فضول ہے، برطانیہ کی ایک غیر سرکاری تنظیم مین کائنڈ (Menkind)ہے جس کی ایک رپورٹ کے مطابق گھریلو تشدد کے متاثرین میں ہر تین میں ایک مرد ہوتا ہے، یہ تعداد اس سے کہیں زائد ہو سکتی ہے، اس تنظیم کا یہ بھی ماننا ہے کہ مردوں کا خواتین کے ذریعہ جذباتی ، جسمانی، دماغی اور معاشی استحصال ہوتا ہے، کیوں کہ مردوں میں تشدد بر داشت کرنے کا خاموش مزاج ہوتا ہے، وہ اسے دوستوں کی مجلسوں میں بھی بیان کرنے میں شرم، جھجھک، خوف اور قباحت محسوس کرتے ہیں، کیوں کہ ان واقعات کے بیان کرنے سے دوستوں میں ان کا وزن کم ہوتاہے اوروہ مذاق کا موضوع بن جاتے ہیں۔
برطانیہ میں مین ریچنگ آؤٹ(Men reaching out)کے نام سے ایک تنظیم قائم ہے جو مردوں پر کیے جا رہے تشدد پر روک لگانے کے لیے قائم کی گئی ہے ، شروع میں ہر ماہ اس تنظیم سے شکایت کرنے والوں کی تعداد بیس(۲۰) ہوا کرتی تھی، لیکن اب یہ تعداد ماہانہ ساٹھ (۶۰) تک پہونچ گئی ہے ، اس تنظیم میں لوگ ہیلپ لائن کی مدد سے شکایتیں درج کراتے ہیں، تنظیم دونوں کو بلا کر کونسلنگ کرتی ہے، سمجھانے بجھانے کے بعد ممکن ہوتا ہے تو صلح کرادیتی ہے اور کلیۃًدروازہ بند محسوس ہوتا ہے تو مرد کی عورت سے گلو خلاصی کی کوشش کی جاتی ہے ۔
ہندوستان میں عورتوں کے ذریعہ مردوں پر ہو رہے تشدد کی تعداد برطانیہ سے کم نہیں ہے ، لیکن معاملات کا اندراج اس لیے نہیں ہوتا کہ ہندوستان میں عورتوں پر تشدد روکنے کے لیے تو قوانین موجود ہیں، لیکن مردوں پر تشدد ہونے کی صورت میں اس کو انصاف دلانے کا کوئی قانون موجود نہیں ہے ، ہندوستان میں گھریلو تشدد (Domostic violence)کے لیے جو قانون ہے ، ان کے سارے دفعات خواتین کے تحفظ پر مرکوز ہیں، ہندوستان میں انڈین ویمن کورٹ ۳۲۳ متاثر مرد کو کچھ حقوق ضرور دیتی ہے، لیکن اس کا نفاذ اس لیے نہیں ہوتا کہ مرد تھانوں کا رخ نہیں کرتے اور کرتے بھی ہیں تو ان کے حصہ میں صرف مذاق آتا ہے، یا پھر تھانے والے الٹا عورت کے ذریعہ مرد پر ایک مقدمہ درج کرادیتے ہیں، اور عدالت کا رخ یہ ہوتا ہے کہ عورت ہی ہر حال میں مظلوم ہے۔
عورتوں کے ذریعہ تشدد کے واقعات کی ایک وجہ شوہر کی مفلسی ہوتی ہے، بقول اکبر الٰہ آبادی ،’’ مفلسی اعتبار کھوتی ہے‘‘‘ اس کی وجہ سے عورت کو محرومیوں کا سامان کرنا پڑتا ہے، جس کی وجہ سے عورتوں کی طرف سے لعن طعن ، لڑنا جھگڑنا شروع ہوجاتا ہے، میاں بیوی کے جھگڑوں میں ضروری نہیں کہ بیوی بیلن ہر روز لے کر دوڑائے، یہاں تشددذہنی، جسمانی، دماغی ایذا رسانی کے معنی میں ہے، ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ بعض موقعوں سے بیلن کی نوبت آجائے۔جو کچن میں بڑی تبدیلیوں کے باوجود عموما ہر گھر میں آج بھی پایا جاتا ہے۔
مرد کی ’’قوامیت ‘‘کی ایک وجہ اللہ رب العزت نے عورتوں پر ان کے ذریعہ ’’انفاق مال‘‘ کو قرار دیاہے ، اب ایسی بیویاں جو متمول گھرانوں کی ہوتی ہیں یا ملازمت پیشہ ہوتی ہیں، ان کے شوہر ان کی کمائی پر گذارا کرتے ہیں ، اسلام میں عورتوں کا نفقہ بوجہ نکاح مرد پر ہے، لیکن یہاں معاملہ الٹا ہوتا ہے، مرد عورت کے نفقہ پر پلنے لگتا ہے، ایسے میں اس کی حیثیت ’’زر خرید‘‘ غلام کی ہوجاتی ہے، اگر اس نے شادی میں تلک جہیز لیا ہوتا ہے تو اس میں مزید پختگی آجاتی ہے، بیوی سوچتی ہے کہ میرے والدین نے اتنے لاکھ میں مجھے ایک عدد شوہر خریدکر دیا ہے،ایسے شوہر کی مصیبت صرف بیوی تک محدود نہیں رہتی ، بیوی کے سارے خاندان والے موقع بموقع لعن طعن کرتے رہتے ہیں، اور عورت اپنے میکہ والے کے کہنے پر شوہر کے لیے نئی نئی مصیبتیں کھڑی کرتی رہتی ہے اور شوہر کو ’’جو کچھ بیگم صاحبہ نے کہا بر حق ہے‘‘ کہہ کر زندگی گذارنی پڑتی ہے۔
اللہ رب العزت نے انسانی زندگی میں مرد وعورت کے نکاحی رشتے کو مودت ومحبت اور پر سکون زندگی کا سبب قرار دیا تھا ، لیکن ہماری بے عملی، بدعملی اور اس رشتے کے احترام کی لازمی اہمیت کے نظر انداز کرنے کی وجہ سے گھر میں سکون وطمانینت جیسی کوئی چیز باقی نہیں رہی، بیش تر گھرانوں کی خانگی زندگی کو آپسی جھگڑے اور غلط فہمیوں نے بر باد کر رکھا ہے ، اس لیے گھر کے نظام کو درست کرنے کی ضرورت ہے، ہماری خانگی زندگی کی بے تربیتی کے اثرات بچوں کی ذہنی نشو ونما پربھی پڑتے ہیں، ہم نے بچوں کی تربیت کا کام اسکولوں اور کنونٹوں کے ذمہ کر دیا ہے، جہاں اعلیٰ اخلاقی اقدار کے فروغ کا کام تمام ہو چکا ہے، مادہ پرستی نے ا نہیں ایک صنعتی کار خانہ بنا دیا ہے، جہاں نصاب پڑھا دیا جاتا ہے ، اقدار نہیں پڑھائے جاتے ،ایسے میں ہماری ذمہ داری کا فی بڑھ گئی ہے، ہمیں اپنے گھر کے نظام کو چست درست رکھنا ہوگا، اور اس کے لیے ملکی قوانین وضوابط کی طرح کچھ اصولوں کو گھر میں بھی رائج کر نا ہوگا ، تاکہ ہماری خانگی زندگی اور گھر یلونظام دوسروں کے لیے بھی اسوہ اور نمونہ بن سکے۔