تحریر: عبد الرشید مصباحی
ایک مسلمان کا فریضہ یہی ہے کہ وہ اپنے سے زیادہ اپنے پڑوسیوں,بھوکوں,غریبوں,کی فکر کرے .اللہ رب العزت نے طاعات وعبادات کا جو بھی مہینہ یا دن ہمارے لئے مخصوص کیا ہے اس کی حکمت الہیہ یہی ہے کہ بندہ اس کے ذریعہ اپنی نیکیوں میں اضافہ کرے اور تقوی شعار بن جائے نیز ان ایام میں اعانت وامداد کو اپنا اولین فریضہ سمجھے, چاہے وہ شب برات ہو ,شب قدر ہو,شب عاشورہ ہو,شب عیدین ہو یہ ساری راتیں اور ان کے ایام باران رحمت کے نزول وحصول مغفرت ورضائے الہی کا ذریعہ ہیں اور ہمارے لئے نجات کا سامان مگر افسوس کہ ہمیں ان کی قدر نہیں اور ان ایام مبارکہ میں بھی ہم لہو ولعب وفضولیات میں مشغول ہو کر اس کی برکتوں و رحمتوں سے محروم رہ جاتے ہیں۔
اور عیدین ورمضان کے فضائل سے تو ابھی تک ہم نابلد ہی ہیں یہی وجہ ہے کہ ان کے مقاصد سے دور صرف برانڈنگ مارکیٹنگ,نمود ونمائش میں ہی مصروف رہتے ہیں چاہے وہ افطار پارٹیاں ہوں,عید ملن تقاریب ہو ,عید الاضحی کے موقعہ پر سیاسیوں واغنیا کی سیاسی دعوت ہو سب کچھ نمود ونمائش ہی کے لئے کیا جاتا رہا ہے .پورے رمضان جس خلوص کے ساتھ رب العالمین کی بارگاہ میں سجدہ ریزی,اپنے گناہوں سے استغفار,کا حکم تھا اور طاعات وعبادات کی کثرت کے ذریعہ رب کو راضی کرنے اور اپنے گناہوں پر اشک ندامت بہانے کی تاکید کی گئ تھی اس کی جانب تو کبھی ہم نے توجہ نہیں کی بلکہ پورے مہینہ عیش وعشرت وفضول خرچیوں میں گذار کر کبر ونخوت کا مظاہرہ کرتے رہے,افطار وسحر میں پر لطف ومتنوع پکوان سے سیر ہوتے رہےاور عید کے موقعہ پر عمدہ ودیدہ زیب ملبوسات پر فخر ومباہات کرتے نظر آئے ‘ مگر ان غریب مزدور ومفلسوں ویتیموں کی کوئ خبر گیری نہیں کی جو پورے رمضان ممبئ کی گلیوں میں گداگری کرتے نظر آتے ہیں.تعمیر ملت وخدمت خلق سے یہ ہماری چشم پوشی کا ہی نتیجہ ہے کہ اغیار آج ہماری قوم پر بھکاری ہونے کا طعنہ دیتے نظر آتے ہیں اس کی وجہ بھی معقول ہے.کیوں کہ بڑے شہروں بالخصوص ممبئ کی جس گلی میں بھی آپ کا داخلہ ہو تو دو چار بھکاری داڑھی ٹوپی میں ملبوس و دو چار نقاب پوش خاتون بھیک مانگتی نظر آجائیں گی.یہ مناظر دیکھنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سارے بھکاری قوم مسلم میں ہی پائے جاتے ہیں۔
اور یہ حالات کہیں نہ کہیں ہماری کوتاہیوں کا نتیجہ ہی ہیں جس کی جوابدہی کل قیامت میں ہم سے ضرور ہوگی۔
اگر ہم مسلمان ہیں اور ایک خدا ورسول پر ایمان رکھنے کا دعوی ہے تو اپنا یہ فریضہ بھی سمجھنا ہوگا کہ ماہ رمضان میں یہ اندھا دھند بالاسراف خریداری,ہائ پرفائل مارکیٹنگ وبرانڈنگ سے زیادہ ضروری ان بھکاریوں وغریبوں ومزدوروں و Hospitels میں کسمپرسی کی زندگی گذار رہے بیماروں کی فلاح وبہبودی کے لئے اقدام کرنا ہے. تعمیر ملت, اصلاح معاشرہ, و تعلیم وتعلم کے لئے سعی پیہم کرنی ہے جس کی جانب عدم توجہ کی بنا پر آج ملک میں مسلمانوں کا وجود خطرہ سے دو چار ہے اور اگر اب بھی ہم.اس جانب متوجہ نہ ہوئے تو یہ جان لیجئے .ان بطش ربک لشدید۔
اور اسی تناظر میں ہمیں یہ سمجھ لینا چاہئے کہ پوری دنیا میں کرونا جیسی اور ملک ہندوستان میں مسلمانوں کی تباہی وبربادی کی سازش اور ان پر عرصۂ حیات تنگ کیا جانا اور میانمار وبرما کی طرح در پردہ ملک بدر کرنے کی خفیہ پلاننگ کرنا ! ہماری انھیں سابقہ غفلتوں کا خمیازہ ہے اور اللہ کی اسی گرفت کا ایک ادنی سا نمونہ۔
ان مع العسر یسرا۔۔۔
اب اپنی سابقہ کوتاہیوں پر اگر اب بھی ہم نادم ہوجائیں اور اتنے بڑے گیم پلان اور پروپیگنڈہ کے دور میں ہوشمندی سے کام لیں تو اللہ رب العزت ہماری خطاؤں کو در گذر کرکے ہمیں دشمن کی سازشوں سے ضرور محفوظ فرمائے گا اور اس تنگی کے بعد اپنی نصرت وحمایت کے ذریعہ امت مسلمہ کو وسعت وکشادگی ودشمن کی سازشوں پر غلبہ عطا فرمائے گا .
من یتکل علی اللہ فہو حسبہ۔۔۔