کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے

تحریر: محمد عرف صدام حسین احمد قادری فیضی
روزہ ایک اہم عبادت ہے یہ بندوں کے لیے ذریعۂ آزمائش بھی ہے اور رحمت بھی اگرچہ اس میں کچھ مشقتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم اس کے فوائد دینی و دنیوی کثیر ہیں ہر بندہ مومن کو چاہیے کہ بطریق احسن روزوں کو پورا کرے تاکہ ان کے فوائدومقاصد عظیمہ وجلیلہ کو حاصل کرسکے جس کا ذکر رب تبارک و تعالی نے اس آیت میں کیا ہے *یاایھاالذین آمنواکتب علیکم الصیام کما کتب علی الذین من قبلکم لعلکم تتقون* (البقرہ: 183) اےایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیزگاری ملے (کنزالایمان) اور یہ مقصد صرف مفطرات کے اجتناب سے حاصل نہیں ہوسکتا بلکہ ساتھ ہی ساتھ اعضاء کے روزے بھی رکھنے ہونگے۔ 
          جیسا کہ حدیث پاک میں ہے: قال جابر اذاصمت فليصم سمعك وبصرك ولسانك عن الكذب والماثم ودع اذي الخادم ولكن عليك وقار وسكينة يوم صيامك ولا تجعل يوم فطرك ويوم صيامك سواء۔  مصنف ابن ابی شیبة، کتاب الصیام باب مايومر به الصائم الخ ، رقم الحدیث: 8965 ، مکتبة الرشد 
       حضرت جابر رضی اللہ تعالی عنہ نے فرمایا جب تم روزہ رکھو تو چاہیے کہ تمہارا کان تمہاری آنکھ اور تمہاری زبان بھی روزہ رکھیں جھوٹ اور گناہ سے اور خادم کو تکلیف دینا چھوڑ دو البتہ تم پر لازم ہے کہ اپنے روزے کے دن وقار و سکون سے رہو اور اپنے افطار کے دن (یعنی غیر روزہ کے دن) اور روزہ کے دن کو برابر نہ بناؤ۔
               نیزعلامہ ابن جوزی فرماتے ہیں: ما من جارحةفي بدن الانسان الا ويلزمه الصوم في رمضان وفي غير رمضان فصوم اللسان ترك الكلام الا في ذكر الله تعالي وصوم السمع ترك الاصغاء الي الباطل والي مالا يحل سماعه وصيام العينين ترك النظر والغض عن محارم الله تعالي۔  بستان الواعظین ص 217 موسسة الکتب الثقافیة
           بدن انسان کے ہرعضو پر روزہ لازم ہے رمضان اور غیر رمضان میں بس زبان کا روزہ سوائے اللہ تعالی کے ذکر کے کلام نہ کرنا ہے اور کان کا روزہ غلط اور ناجائز باتوں کو نہ سننا ہے اور آنکھوں کا روزہ حرام چیزوں کو نہ دیکھنا اور نگاہیں جھکا لینا ہے۔
              اس سے ثابت ہواکہ اعضاء كے روزے بھی لازم ہیں یعنی اعضاء كو گناه سے بچانا ضروری ہے پس جو لوگ رمضان میں روزے تو رکھتے ہیں مگر نماز نہیں پڑھتے بلکہ ایک دوسرے کی غیبت کرنے , جھوٹ بولنے اور طرح طرح کے گناہوں میں وقت گزار دیتے ہیں پھربھی اس خیال خام میں مبتلا رہتے ہیں کہ انہوں نے روزے کاحق ادا کردیاایسے لوگ کان لگاکر سنیں اللہ کے حبیب صلي الله تعالي عليہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں: من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله ان يدع طعامه وشرابه۔ صحيح البخاري ، كتاب الصوم ، باب من لم يدع قول الزور الخ ، رقم الحديث :1903
              جس نے جھوٹ بولنا نہیں چھوڑا تو اللہ تعالی کو اس کے کھانے پینے کے چھوڑنے کی کوئی حاجت نہیں ہے۔
اس لئے کہ فرمان پاک ہے: ان الصيام ليس من الاكل والشرب فقط انما اللغو والرفث۔  صحیح ابن حبان ، ج8 ، کتاب الصوم ، باب آداب الصوم ، مؤسسۃ الرسالة بیروت
              بے شک روزہ صرف کھانے پینے سے رکنے کا نام نہیں ہے بلکہ روزہ بے ہودہ اور فحش چیزوں سے رکنے کا نام ہے
                پس جو لوگ بے ہودہ اور فحش چیزوں سے باز نہیں رہتے ان کےبارے میں آقا علیہ السلام نےارشاد فرمایا: رب صائم ليس له من صيامه الا الجوع۔  السنن الكبري للنسائي ج3 ، رقم الحدیث 3,236 ، مؤسسة الرسالة 
            کچھ روزے دار ایسے ہیں جنہیں اپنے روزے سے بھوک کے سوا کچھ حاصل نہیں ہوتاہے
           اور دوسری روایت میں ہے: رب صائم حظه من صيامه الجوع والعطش۔  المعجم الکبیر للطبرانی ، ج12 ، ص382 ، رقم الحدیث: 13413 ، مکتبة ابن تیمیة
              کچھ روزے دار ایسے ہیں کہ ان کے روزوں میں سے ان کا حصہ بھوک اور پیاس ہے.
          پس روزہ کے ثواب کثیر اور جزائے عظیم کے حصول کےلئے جہالت کے تمام امور سے اجتناب بےحد ضروری ہے اسی لئے سرکار اعظم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی امت کے صائمین کو جہالت کے تمام امور سے اجتناب کی تعلیم فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا: *اذا كان يوم صوم احدكم فلا يرفث ولا يصخب فان سابه احد اوقاتله فليقل اني امرأ صائم* 
           جب تم میں سے کسی کے روزے کا دن ہو تو وہ نہ فحش کلام کرے اور نہ ہی شور شرابہ کرے پس اگر کوئی اسے گالی دے یا اس سے لڑائی کرے تو وہ کہے میں روزے دار آدمی ہوں۔ 
          اس کا یہ معنی نہیں کہ روزہ کے علاوہ یہ سب کام جائز ہیں بلکہ مطلب ی

ہ ہے کہ روزے میں ان کاموں کی ممانعت زیادہ مؤکد ہے۔

                اور دوسری روایت میں ہے: الصيام جنة فلا يرفث ولا يجهل وان امرأ قاتله اوشاتمه فليقل اني صائم مرتين۔  صحيح البخاري ، كتاب الصوم ، باب فضل الصوم ، رقم الحديث :1894
              روزہ ایک ڈھال ہے پس کوئی شخص روزے میں فحش بات نہ کرے نہ ہی جہالت کی بات کرے بلکہ اگر کوئی شخص اس سے لڑے یا اسے گالی دے تو اس سے دو بار کہے میں روزہ دار ہوں.
             خیال رہے کہ روزہ کی مشروعیت كا مقصد نفس کی شہوتوں کو توڑ نااور دل میں تقوی پیدا کرناہےجس كا ذكر الله تعالي نے اپنے کلام بلاغت میں یوں فرمایاہے: ياايها الذين آمنوا كتب عليكم الصيام كما كتب علي الذين من قبلكم لعلكم تتقون البقرة:183
          اےایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے جیسے اگلوں پر فرض ہوئے تھے کہ کہیں تمہیں پرہیز گاری ملے۔کنزالایمان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے