اس میں کوئی شک نہیں کہ قدرتی وبا کورونا وائرس نے دنیا کے بڑے سے بڑے ترقی یافتہ ممالک کی معیشت پر سوالیہ نشان لگا دیئے ہیں۔ خود کو سوپر پاور کہلانے والے امریکہ، اٹلی اور روس جیسی ترقی یافتہ کہے جانے والے ممالک نے بھی کورونا کی ہلاکت کے سامنے بے بس نظر آرہے ہیں اور اس سے ہو رہی معاشی بحران کے شکار ہیں۔ پھر اپنا ملک تو گلوبل ہنگر انڈیکس (بھوک مری کی لسٹ) میں کہیں 90 پائدان سے بھی نیچے ہیں۔ حتی کہ بات بات میں جس پاکستان کی کھلیاں اڑانا سیاسی لیڈران کا بہترین مشغلہ ہے اور بنگلہ دیش جیسا کمزور اور پھسڈی سمجھا جانے والا ملک بھی ہندوستان سے اوپر ہے وہاں بھوک مری ہمارے ملک سے کم ہے۔ تو پھر اپنے ملک کی معاشی حالت چرمرانی طے تھی۔ اور ہوا بھی یہی کہ لاک ڈاؤن ہوئے دو دن بھی نہیں گزرا حکومت نے عوام سے چندہ مانگنا شروع کردیا۔ حتی کہ کچھ ہی دنوں میں قوم کا درد رکھنے والوں نے کھربوں روپئے پی۔ ایم۔ کیئر فنڈ میں جمع کرادئے۔ مگر میں کم پڑھا لکھا شخص حکومت سے جاننا چاہتا ہوں کہ آخر غریب، ناتواں، بے بس، لاچار عوام نے اپنے سارے کام خود کے پیسوں سے کیا، تین مہینے تک کا غلہ مفت دینے کی بات کرنے والی حکومت دوسرے ہی مہینے سے پیسے کی بات کرنے لگی ہے ایسا خبروں میں آیا ہے۔ جانچ کٹ سے لے کر دوا، وینٹی لیٹر، ہسپتال خرچ سب کچھ عوام اپنی جیب خاص سے ادا کررہی ہے۔ حتی کہ اپنے پاس پڑوس میں بسے غریبوں کی مدد بھی خود اپنی محنت کی کمائی سے کررہی ہے اور تو اور بے چار اپنے گھروں سے کوسوں دور رہنے والے مسافر مزدوروں سے ٹرین کا کرایہ تک حکومت وصول رہی ہے۔ تو آخرکار پی۔ایم۔ فنڈ کا فائدہ کیا ہوا۔ اسے خرچ کہاں کیا جارہا ہے؟ ابھی جب ملک میں کورونا کی ہلاکت خیز لہریں لوگوں کو موت کی نشیب وفراز میں ہچکولے کھانے پر مجبور کر رہی ہیں تب بھی صاحب کی تجوری نہیں کھل رہی تو کیا جب پورا ملک موت کے چنگل میں چلا جائے گا تب وزیر اعظم صاحب اپنی تجوری کھولیں گے تاکہ مہلکین کے اہل خانہ کو چند سکے دے کر ان کی ہم دردی حاصل کی جاسکے؟
اور حد تو یہ ہے صاحب! ملک کی معیشت کمزور نہیں ہوئی بلکہ ایسا لگتا ہے "ہاتھی کے دو دانت، کھانے کو اور دکھانے کو اور” کے مطابق معیشت ٹھیک ٹھاک ہے مگر حکومت رونا رو رہی ہے تاکہ غریب اور رحم دل رعایا کی مروت حاصل ہوجائے۔ خیر جو بھی ہو مگر معیشت ڈگمگائی تو لاک ڈاؤن کے اس تیسرے مرحلے میں حکومت نے کچھ ایسی چھوٹ دے کر معیشت سنبھالنے کی کوشش کی جو میرے کیا ہر ذی عقل وشعور کی سمجھ سے نہ صرف بالاتر ہے بلکہ مضحکہ خیز بھی۔ کل صبح سے ہی کئی ایسی خبریں، ویڈیوز اور تصویریں سامنے آئیں جنھیں دیکھ کر مجسمہ حیرت واستعجاب بن بیٹھا حتی کہ غصہ بھی آنے لگا کہ سماجی دوریوں کی پرواہ کئے بغیر شرابی لوگ شراب کی دوکانوں کے سامنے کھڑے ہیں۔ اور لائن اتنی لمبی کہ ایسا لگ رہا تھا کوئی دو تین مال گاڑی ٹرین کھڑی ہو وہ بھی اتنی باہمی جتھا جتھی کے ساتھ کہ دو شخصوں کے درمیان ایک انگل کا فاصلہ نہیں تھا، ایک میٹر کی بات ہی درکنار۔ غصہ اس بات پر آرہا تھا کہ انتظامیہ کیا کررہی تھی؟ اور الکٹرانک میڈیا میں اب تک اس پر گلے پھاڑ پھاڑ کر چلانے والے زرخرید اینکرز اب تک ڈیبیٹ کیوں نہیں کئے یا پھر ان ضمیر فروشوں نے صرف مرکز، مسجد اور مسلمانوں کے صحیح کاموں کو بھی بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کی قسم کھا رکھی ہے؟ بہر حال ہم نہیں چاہتے کہ مرکز کی بات یا اس جیسی حالت کسی بھی فرقے کے ساتھ نہ پیش آئے۔ مگر کیا حکومت ان شراب کے ٹھیکے داروں کو دکانیں کھولنے کی اجازت دے کر ملک کی ڈگمگاتی معیشت کو سنبھالنے کی کوشش کررہی ہے؟ اب کیا ملک کی حکومت ان شرابیوں کے پیسوں پہ چلے گی؟ کیا کسی کو دوا، غلہ (اگر چہ نہ مل رہا ہو اور صرف ڈنکا پیٹا جائے) ان شرابیوں کے پیسوں سے دی جائے گی جو نشے کے ایسے عادی ہوتے ہیں کہ اپنے گھر کے سامان، بیویوں کے گہنے، بچوں کے ارمان بھی بیچ کر شراب نوشی کرنے سے دریغ نہیں کرتے۔
خدا عقل دے۔ کیا ہوگیا ہے حکومتی اہلکاروں اور ان کے مشیرین کو جو ملک کی ایسی حالت بنانے پر تلے ہیں۔
ماشاءاللہ حضرت بہت ہی عمدہ تحریر ہے
اچھی غوروفکر ہے