مسلمانان ہند کے در پیش مسائل اور انکا حل

تحریر: محمد وسیم فیضی
بات ہندی مسلمانوں کی ہے،کہ جب سے ملک عزیز انگریزوں کے چنگل سے آزاد ہوا ہے،اسوقت سے لیکر اب تک ،ہندی مسلمان ضرور کسی نہ کسی مسئلے میں الجھے ہوئے ہیں۔اور وہ مسائل چاہے سیاسی ہوں، یا سماجی ہوں،یاعائلی ہوں،بہر حال نۓ نۓمسائل ابھر کر سامنے آتے رہے ہیں۔ مگر پچھلے چند سالوں میں مسائل کے انبار لگ گئے ہیں ۔
جب سے ہندو ستان کی قیادت بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھوں میں گئی ہے،اسوقت سے لیکر ابتک جو حالت مسلمانوں کی ہو گئی ہے وہ ناگفتہ بہ ہے ۔بھارتیہ جنتا پارٹی اور آرایس ایس والوں نے جس طرح سے مسلمانوں کی گھیرا بندی کی ہے وہ دو دو چار کی طرح بالکل عیاں ہے، کبھی طلاق کےنام پر مسلمانوں کو پریشان کیا،تو کبھی کشمیر سے دفعہ ۳۷۰ہٹایا ،تو کبھی گؤکشی اورلب جہاد کے نام پر مسلمانوں کا قتل عام کیا گیا ،تو کبھی NRCاورCAAجیسے خطرناک قرارداد کو پاس کرا کے مسلمانوں کے اندر خوف و ہراس  پیدا کیا،اور آج جب کہ ساری دنیا ایک خطرناک وبا سے جوجھ رہی ہے ،  تو اسکے پھیلنے کا بھی ذمہ دار ہندوستانی مسلمانوں کو ٹھہرایاجا رہا ہے،ایسے بہت سارے شازش ہندوستانی مسلمانوں کے خلاف تیار کۓ جا رہے ہیں۔
  اور ہندوستانی مسلمان اب بھی خواب غفلت میں مبتلا ہے ، ہمیشہ کی طرح اب بھی ماضی کی تلخیوں کو بھلا کر مستقبل کی تابناکیوں کا خواب دیکھ رہا ہے ،اسے یہ پتہ ہی نہیں کہ خوابوں کی تعبیر اسی وقت ممکن ہے ،کہ جب ماضی کو حال سے جوڑ کر آئندہ کے لائحۂ عمل طے کۓ جائیں ،اور گزرے ہوئے واقعات و حادثات کے اسباب کو سمجھ کر امیدوں کے نۓ چراغ جلاۓ جا ئیں ۔اگر ماضی کی تلخیوں اور تجربوں کے پیش نظر چند مسائل پر منصوبہ بندی ہو تو حالات کے رخ بدل سکتے ہیں ۔۔۔۔
کامن ایشوز پر اتحاد۔۔۔۔۔۔امت مسلمہ کے درمیان اعتقادی اور مسلکی اختلافات ایک سچائی یے، اور پیغمبر اسلام کی پیشن گوئی کے عین مطابق ہے،اور ان اختلافات کو نہ روکا جا سکتا ہے اور نہ ختم کیا جا سکتا ہے ، اور جو لوگ امت کے مسلکی  اختلافات کو ختم کرنا چاہتے ہیں ،در اصل وہ فطرت سے ٹکرانے کی کوشش کر رہے ہیں ۔آج امت کے درمیان دہشت گردی ، مسلم پرسنل لاء،عبادت گاہوں،قرآن،مدارس،تعلیم اور معیشت کے مسائل مشترک ہیں،ان مسائل کے حل کے لئے ایک اجتماعی بلند اور مستحکم آواز کی ضرورت ہے ،جسے خانوں میں تقسیم ہوکر حل نہیں کیا جا سکتا ، اس طرح کے مسائل جب بھی اٹھیں مسلمان متحد ہو کر اپنے اپنے مسلکی تشخصات کے ساتھ سامنے آئیں، تاکہ حکومتوں کو مسلمانوں کی یکجہتی کی طاقت کا احساس ہو ، اور یہی ہمارے اسلاف کی روش بھی رہی ۔
   اسلامی میڈیا ہاؤس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آج ذرائع ابلاغ اپنے اثرات اور طاقت کے ساتھ ایک عفریت کے طور پر نمودار ہوا ہے ،اور اسکے ذریعہ خیر وشر کی اشاعت عالمی سطح پر  ہو رہی ہے ۔اسلامی میڈیا کی تشکیل وقت کی سب سے اھم ضرورت ہے ،تاکہ اسلام اور مسلمانوں کوبد نام کرنے کی مہم کا مؤثر طریقے سے مقابلہ کیا جا سکے ۔
جاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے