کورونا وائرس، ماہ رمضان المبارک اور عیدالفطر

تحریر: ہاشم رضا مرادآبادی
اس وقت دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ہلاکت خیزیاں  جاری ہیں چین کے شہر ووہان سے پھیلنے والا یہ مہلک مرض اب تک دنیا کے بہت سے ممالک میں داخل ہوکر اپنا قہر برپا کیے ہوئے ہے 
دنیا بھر میں تقریباً ایک لاکھ افراد اس سے مر چکے ہیں جبکہ تیس لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر ہوچکے ہیں
کورونا  وائرس سے متاثر ممالک میں حفاظت و احتیاط کے پیش نظر سماجی دوری کو لازمی کردیا گیا ہے اور لاک ڈاؤن کا نفاذ جاری ہے
ہمارے ہندوستان  میں بھی ایک ماہ سے زائد ہوگیا تا ہنوز لاک ڈاؤن جاری ہے جس کے سبب آدمی اپنے گھر ہی میں محصور ہو کر رہ گیا ہے 
امسال شب برات کی آمد بھی لاک ڈاؤن کی حالت میں ہو اور وہ بھی گذر گئ
لیکن افسوس
کہ وہ گذشتہ سالوں کی طرح شب برات کی رونقیں دیکھنے کو ملیں
نہ مسلم علاقوں میں وہ چہل پہل رہی
نہ مساجد میں نمازیوں کا جم غفیر نظر آیا
نہ ہی مساجد میں اکٹھے ہوکر نماز پڑھنے کا موقع ملا
نہ اپنے پیاروں سے ملنے کے لئے قبرستانوں میں جانا ہوا
شب برات گذر گئ تو یہ امید تھی کہ ماہ رمضان کے آنے سے پہلے تک لاک ڈاؤن ختم ہوجائے گا
اور ہم اپنے مقدس مہینہ کا اسی طرح استقبال کریں گے جس طرح ہر سال کرتے آئے ہیں
مگر  آہ 
اس کورونا وائرس کی تباہ کاری میں کمی نہ ہونے کے سبب لاک ڈاؤن یوں ہی جاری رہا 
یہاں تک کہ ماہ رمضان کا چاند نظرآگیا 
لیکن اس بار چاند دیکھ کر وہ خوشیوں کی بہاریں دیکھنے کو نہیں ملیں جو ہر سال نظر آتی تھی 
گلی گلی میں رمضان کی آمد کا شور ہوتا تھا 
مگر اس بار تو گلی چوراہوں پر سناٹا چھایا ہوا تھا 
آہ
 وہ گذشتہ رمضان المبارک کی پر کیف بہاریں
وہ مساجد میں پانچوں وقت نمازیوں کی کثرت
وہ تراویح کے لئے مسجدوں میں جانا
وہ فجر کی نماز میں نمازیوں کا جم غفیر
وہ افطاری لیکر بچوں کا مسجدوں میں جانا
وہ مسجدوں میں افطار کرتے وقت کا نورانی سماں
وہ افطار سے پہلے بازاروں  میں پھل فروٹ کھجور وغیرہ سامان افطار کی خرید و فروخت یہ پیاری پیاری یادیں رمضان  میں موجودہ حالات  کو دیکھ کر ذہن میں گردش کر رہی ہیں اور دل بے چین ہو رہا ہے
کہ جب سے سن شعور میں قدم رکھا ہے پہلی بار ماہ رمضان میں ان مشکل حالات کو دیکھنا کرنا پڑ رہا ہے 
اور چونکہ ابھی کورونا کا اثر ختم نہیں ہوا ہے اس لئے لاک ڈاؤن کے مزید بڑھنے کا غالب امکان ہے 
اور اگر عید سے پہلے لاک ڈاؤن ختم بھی ہوگیا تو پھر بھی سماجی دوری پہلے ہی کی طرح ضروری رہے گی 
اس لئے اس بار 
نہ مسجدوں میں ختم قرآن کی نورانی محافل میں شرکت ہو سکے گی
نہ عید سے پہلے عید میں پہننے کے لئے نئے نئے کپڑوں کی خریداری اور عید کی تیاری ہوگی
نہ شب عید الفطر میں کپڑوں اور جوتے کی دکانوں میں بھیڑ نظر آئے گی
نہ بازار وں میں ہجوم ہوگا
نہ خاص عیدالفطر  میں وہ رونقیں نظر آئیں گی جو پہلے دیکھا کرتے تھے 
نہ اپنے احباب و رشتہ داروں کے یہاں عید ملن اور میٹھی سویاں کھانے کے لئے جا سکیں گے
حاصل یہ کہ اگر معاملہ ایسا ہی رہا جس کی توقع ہے تومسلمانوں کے یہاں سب سے زیادہ خوشیوں کے ساتھ منایا جانے والے تیوہار کی رونقیں اس بار پھینکی نظر آئیں گی۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے