روزہ اور تربیت نفس

تحریر: حافظ محمد ہاشم قادری صدیقی جمشیدپور

کلامِ الہٰی قرآن مجید انسانوں کونہ صرف سیدھا راستہ دکھاتا اوربتاتاہے بلکہ اس راستے پر چلانے اور منزل مقصود تک پہنچانے کے لئے رہنمائی بھی کرتا ہے۔ چنانچہ بہت ہی اچھوتے انداز میں یہ بات ذہن نشین کرائی جارہی ہے۔ *وَنَفْسٍ وَّمَا سَوّٰ ھَا فَاَ لْھَمَھَا فُجُوْرَھَا وَتَقْوٰھَا قَدْ اَفْلَحَ مَنْ زَکّٰھَا وَقَدْ خَابَ مَنْ دَسّٰھَا* ترجمہ :قسم ہے نفس کی اور اس کو درست کرنے والے کی ،پھر اس کے دل میں ڈال دیا اس کی نافرمانی اور اس کی پارسائی کو۔یقینا فلاح پا گیا وہ جس نے اپنے نفس کو پاک کر لیا اور یقینا نا مراد ہوا جس نے اس کو خاک میں دبا دیا۔(القرآن 91،آیت 7تا 10)
آیت کریمہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر شخص کو نیک و بد، حق و باطل اور صحیح و غلط میں تمیز کرنے کا شعور عطا فرمایا ہے۔ وہ اچھی اور بری چیزوں میں پوری طرح امتیاز کر سکتا ہے۔اس کا یہ بھی مفہوم بتایا گیا ہے کہ انسان میں نیکی کرنے اور برائی کرنے کی دونوں صلاحیتیں موجود ہیں،اب اس کی مرضی کہ وہ نیکی کو پسند کرتا ہے یا برائی کو اختیار کرتاہے۔
تزکیہ نفس کے بارے میں ارشاد رسول اللہ ﷺ ہے۔ شداد بن اوص کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: دانا(عقلمند) اور زیرک (بہادر)شخص وہ ہے جو اپنے نفس کو زیر کئے ہوئے ہواور ما بعد موت کے لئے عمل کرے اور عاجز و درماندہ شخص وہ ہے جو اپنی خواہشات ِ نفس کا غلام ہواور خدا سے (اجرو ثواب اور مغفرت )کی آرزو رکھتاہو۔
روزہ کا مطلب شرعی یہ ہے کہ ایک مسلمان طلوع صبح صادق سے غروب آفتاب تک کھانے پینے اور جائز جنسی خواہش کو پورا کرنے سے رک جائے۔ اللہ چاہتا ہے روزہ دار ایک محدود وقت(Limited Time) تک کھانے پینے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے رک کر فرشتوں کی مشابہت کرے اور اپنے اندر فرماں برداری اور تقویٰ (خوف خدا) پیدا کرے ۔ روزہ قربت الہٰی کا بہترین ذریعہ ہے ۔ اسی ذریعہ سے اللہ نے رسولوں کو انعامات اور کلام سے بھی نوازا ہے۔ چنانچہ احادیث کریمہ میں موجود ہے کہ جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کوہِ طور پر تورات شریف لینے جاتے ہیں تو چالیس دن اور رات اپنے کو بھوکا پیاسا رکھتے ہیں۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بھی چالیس شب و روز روزے سے رہتے ہیں تب انھیں انجیل عطا کی جاتی ہے۔ یہی معاملہ حضور نبی کریم ، خاتم المرسلین حضرت محمد ﷺ کا ہے۔آپ مسلسل ایک ماہ تک انسانی علائق و ہجوم سے دور رہ کر عبادت و ریاضت میں مصروف رہتے ہیں کہ روح الامین حضرت جبرئیل امین ایک رات کتاب ہدایت لے کر حاضر ہوئے۔ *اِنَّا اَنْزَلْنٰہٗ فِی لَیْلَۃِ الْقَدْ ر* ۔یہ قرآن کلامِ الہٰی لیلۃ القدر میں نازل ہوا۔ یہی وہ مبارک رات ہے جس کو ہم شب قدر کے نام سے جانتے ہیں اور یہ رات اتنی اہمیت کی حامل ہے کہ قرآنی الفاظ میں ہزار مہینوں سے بہتر ہے اور ساری دنیا کی ہدایت کے لئے بھی قرآن نازل ہوا۔ ھد اللناس بھی کلام الہٰی کا مقصد ہے ۔ روزے کی اس تربیت کا مقصد یہ نہیں کہ صرف کھانے پینے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے رک جانا ہے بلکہ اپنی پوری زندگی میں اطاعت ِ خدا وندی و فرماں برداری کی کیفیت اپنے اندر پیدا کرنا ہے۔ اگر یہ کیفیت نہیں پیدا ہوتی ہے تو بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ وہ روزہ، روزہ نہیں بلکہ بھوک و پیاس برداشت کرنا ہے اور اپنے نفس کو دھوکا دینا ہے۔ اللہ پاک کو ایسے بھوکے پیاسے کی ضرورت نہیں ۔ اگر روزوں سے انسان کی عملی زندگی میں بدلاؤ نہیں آتا ، اللہ کا خوف اور اطاعت الہٰی کی طرف عملی قدم نہیں بڑھاتا تو ایسے روزے دار نام نہاد روزہ رکھ رہے ہیں ،اللہ کو ایسے روزوں کی ضرورت نہیں۔ مصطفی جانِ رحمت ﷺ کا ارشاد گرامی ہے: من لم یدع قول الزورِ والعمل بہ فلیس اللہ حاجۃ فی ان یدع طعامہ وشرابہ(بخاری باب کتاب الصوم حدیث 1903)۔ترجمہ: جو شخص روزے کی حالت میں جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ کو اس کی حاجت نہیں کہ وہ بھوکا اور پیاسا رہے۔
روزہ کے مقاصد اور حکمتیں
قرآن مجید سے یہ واضح ہوتاہے کہ روزے کے تین بنیادی مقاصد ہیں۔(1)تقویٰ یعنی خوفِ خدا رکھنا(2) اللہ کی ہدایت پر اس کی عظمت کا اظہار (3) اللہ کی نعمت پر اس کا شکریہ ادا کرنا ۔ارشاد ربانی ہے : اے ایمان والو!تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے انبیاء کے پیرؤوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم پر ہیزگار بن جاؤ۔(القرآن2،آیت 185) تمام حلال چیزیں اپنے رب کے حکم سے چھوڑ دیں تواب جو حرام ہیں ان کو بھی ترک کردو اور سال کے باقی گیارہ مہینے بھی اللہ سے ڈر کے رہواور روزہ کے دنوں کی طرح پوری زندگی گزارو۔ روزہ کے دوسرے مقصد کا ذکر قرآن کریم میں یہ بیان کیاگیا ہے :قرآن پاک کو رمضان سے اور رمضان المبارک کو قرآن سے ایک خصوصی مناسبت اور گہرا تعلق ہے ۔یہ وہ مبارک مہینہ ہے جس میں انسانی ہدایت کے لئے قرآن کا نزول ہوا۔ارشاد باری تعالی

ٰ ہے:رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن اترا لوگوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے اس میں فیصلہ کی روشن باتیں ہیں۔ حضور اکرم ﷺ رمضان میں تلاوت کا خصوصی اہتمام فرماتے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ص سے روایت ہے کہ رمضان کی ہر رات میں حضرت جبرئیل علیہ السلام آپ کے پاس آتے اور قرآن مجید کا دور کرتے ۔ روزہ کا تیسرا مقصد یہ ہے کہ بندہ اللہ کے حضور گڑگڑاکر اپنی خطاؤںسے معافی طلب کرے ، خوف خدا اس کے دل میں بس جائے۔ماہِ رمضان قبولیت دعا کا حسین وقت ہے ۔اس ماہ میں دعاؤں کی کثرت کیجئے۔ پیارے آقا نے ارشاد فرمایا کہ خدا رمضان میں عرش اٹھانے والے فرشتوں کو حکم دیتا ہے کہ اپنی عبادتیں چھوڑ دو اور روزہ رکھنے والوں کی دعاؤں پر آمین کہو۔ کتنی بڑی نعمت کا اعلان اس حدیث پاک سے معلوم ہوا۔ قرآن پاک میں بھی ارشاد ہے۔خدا کی رحمت بہت وسیع ہے کسی کے گناہ کتنے ہی زیادہ ہوں بندہ جب اللہ کی بارگاہ میں شرمسار ہو کر گڑگڑا تا ہے تو مولائے رحیم اسے اپنے دامنِ عفو میں چھپا لیتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے: *وَاسْتَغْفِرُو وَ رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْ اِلَیْہِ *اِنَّ رَبِّی رَحِیْمُٗ وَّ دُوْد* (ترجمہ: اپنے پروردگار سے مغفرت چاہو اور اس کی طرف پلٹ جاؤ۔ یقینا میرا رب بڑا ہی رحم فرمانے والا اور محبت فرمانے والا ہے۔ (القرآن، سورہ ہود، آیت 9)

روزہ کی اصل روح:روزے کے شرعی مقاصد میں یہ بات داخل ہے کہ انسان کو بھوک اور پیاس کی حالت میں رکھ کر اسے صبر و تحمل کا عادی بنایا جائے۔ کوئی آپ کی تحقیر و تذلیل کرے تو آپ صبر و تحمل سے کام لے کر نظر انداز کر دیجئے۔ نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :تم میں سے جب کوئی روزے سے ہوتو اپنی زبان سے بے شرمی کی بات نہ نکالے اور نہ شورو ہنگامہ کرے اور اگر کوئی اسے گالم گلوج کرے یا لڑنے پر آمادہ ہو تو اس روزہ دار کو سوچنا چاہئے کہ میں تو روزہ دار ہوں، میں کیسے گالم گلوج اور لڑائی کر سکتا ہوں۔(بخاری) روزہ رکھ کر اپنے اندر اخلاق و کردار کی تعمیر کرے۔ آدمی وہ کام کرے جس سے اخلاق سدھریں، جذبات و خواہشات قابو میں رکھے ،خوف خدا کے ساتھ اپنے اندر تقویٰ پیدا کرے جو اصل روزے کی روح ہے ۔ اسی لئے حدیث پاک میں فرمایا گیا کہ روزہ رکھنا ،کھانا پینا چھوڑنے کا نام نہیں بلکہ روزہ تو ہے کہ روزہ دار لغو اور برے کاموں سے بھی اجتناب کرے۔(السنن الکبریٰ البیہقی ج4،صفحہ 270)تقویٰ پر عمل کی قبولیت کا مدارہے۔ قرآن کریم میں ہے *اِنَّمَا یَتَقَبَّلَ اللّٰہٗ مِنَ الْمُتَّقِیْن* ترجمہ: اللہ متقیوں کا ہی عمل قبول فرماتا ہے (القرآن، سورہ المائدہ، آیت 27) ۔تقویٰ (خوف خدا) بہت ہی اونچی اور اعلیٰ صفت ہے ۔ بلکہ تمام خوبیوں کی روح تقویٰ ہے۔ جس کو یہ اعلیٰ ترین صفت میسر ہے اس کے لئے دنیا و آخرت کی بے شمار نعمتوں کی خوشخبری سنائی گئی ہے۔ قرآن کریم میں ہے *اِنَّ لِلْمُتَّقِیْنَ عِنْدَ رَبِّہِمْ جَنَّتِ النَّعِیْم* (القلم آیت 34) ترجمہ: بے شک متقیوں کے لئے ان کے رب کے یہاں نعمتوں سے لبریز جنتیں ہیں۔ یہی نہیں بلکہ ان سے دنیا میں بھی آسمان و زمین کی برکتوں کا وعدہ کیا گیاہے۔ *وَلَوْ اَنَّ اَھْلَ الْقُرٰی آمَنُووَالتَّقُو لَفَتَحْنَا عَلَیْھِمْ بَرَکٰت مِنَ السَّمَائِ وَالْاَرْض* ترجمہ: اگر بستیوں کے لوگ ایمان لاتے اور تقویٰ کی روش اختیار کرتے تو ضرور ہم ان پرزمین و آسمان کی برکتوں کے دروازے کھول دیتے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے مومن بندوں کو تقویٰ کا حکم فرمایا اور اس امت سے پہلے لوگوں کو بھی تاکید فرمائی۔ارشاد باری ہے: *وَلَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُو الْکِتَابَ منِ ْقَبْلِکُمْ وَ اِیَّا کُمْ اَنِ التَّقُواللّٰہ* یقینا جنھیں تم سے پہلے کتاب دی گئی انھیں اور تم کو ہم نے تاکید فرمادی ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔  *اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُتَّقِیْن* یقینا اللہ تعالیٰ پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے ۔ خوف خدا رکھنے والوں کو اللہ تعالیٰ جنت کے باغات میں داخل فرمائے گا۔  *اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِی جَنَّاتٍ وَّ عُیُوْن* یقینا اللہ سے ڈرنے والے باغوں اور چشموں میں ہوں گے ۔اللہ نے تقویٰ کا کثیر آیات مبارکہ میں ذکر فرمایا ہے ، جو اس کی فضیلت و شرف کی دلیل ہے ۔ اس دنیا اور آخرت میں فضیلت و کامیابی کا معیار تقویٰ کو بنایا ، کسی خاندان میں پیدا ہونا ، کسی ملک کا باشندہ ہونا اور خوبصورت ہونا ان چیزوں کو اسلام نے وجہ افتخار نہیں قرار دیا۔ حضرت عبداللہ بن مسعود ص فرماتے ہیں وتقو اللہ حق تقاتہ ۔اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے۔اور اس سے ڈرنے کا حق یہ ہے کہ اس کی فرماں برداری کی جائے، نافرمانی سے بچا جائے ، اس کا ذکر کیا جائے ، اس کو بھلایا نہ جائے اور اس کا شکریہ ادا کیا جائے، ناشکری نہ کی جائے ۔یہی بنیادی مقصد روزوں کا ہے کہ بندہ اللہ سے خوف رکھے اور اسی خوف کی بنیاد پر تمام دنیاوی معمولات و عبادات پر عمل پیرا ہو۔
زبان و آنکھ ، کان کا روزہ :ارشاد باری ہے: *مَا یَلْفِظُ مِنْ قَوْلٍ اِلَّا لَدَیْہِ رَقِیْبُٗ عَتِیْد* ترجمہ: کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیارنہ بیٹھا ہو لکھنے کے لئے۔(القرآن سورہ ق،آیت 17)ہر انسان کے ساتھ دو فرشتے رہتے ہیں ۔ایک دائیں ایک بائیں۔دایاں نیکیاں لکھتا ہے بایاں گناہ۔ حدیث پاک میںہے یہ فرشتے بیمار کا کراہنا بھی لکھتے ہیں ۔ نیکی والا فرشتہ ایک کی دس لکھتا ہے۔ برائی والا ایک کی ایک ہی لکھتا ہے ۔ اگر بندہ توبہ استغفار کرے تو محو(مٹادیت

ا)کر دیتا ہے۔روزے میں ہربرائی اور ہر مصیبت سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ روزے کا مقصد ہی زندگی کو پاکیزہ بنانا ہے۔ بد کلامی، فضول گوئی، طنز، لعن طعن، جھوٹ، بہتان، لڑائی جھگڑا،گالی گلوج سے مکمل اجتناب کرنا ہے ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :اذا کان یوم صوم احدکم فلا یرفث ولا یصخب فان سابہ احد او قاتلہ فلیقل انی صاسم(متفق علیہ)تم میں جو روزہ دار ہووہ نہ بدکلامی کرے نہ فضول گوئی اور شور شرابہ۔ اگر کوئی اس کو گالی دے یا لڑنے جھگڑنے پر آمادہ ہو تو وہ کہہ دے کہ میں روزے سے ہوں۔ روزہ رکھ کر بھی انسان برائیوںسے نہ بچ سکے تو ایسے روزہ سے بھوک اور پیاس کے سوا آدمی کو کچھ حاصل نہیں ۔اللہ کے رسول نے فرمایا: روزہ دار صبح سے شا م تک خدا کی عبادت میں ہے جب تک کہ وہ کسی کی غیبت نہ کرے اور جب وہ کسی کی غیبت کرنے بیٹھتا ہے تو اس کے روزے میں شگاف پڑ جاتا ہے۔ زبان صرف اور صرف نیک و جائز باتوں کے لئے ہی حرکت میں آئے۔ تلاوت قرآن کریں ، درود شریف کثرت سے پڑھیں ، نعتیں پڑھیں ، دین کی باتیں کریں، جھوٹ، غیبت، چغلی، فضول باتیں ہرگز نہ کریں۔ زیادہ باتیں کرنے والا اللہ کے نزدیک سخت نا پسندیدہ ہے۔ اللہ کے رسول کا ارشاد گرامی ہے: *اِنَّ اللّٰہ تَعَالیٰ کَرِہَ لَکُمْ ثَلاثَۃٍ قِیْلَ وَ قَال وَ اِضَاعَۃَ الْمَالِ وَ کَثْرَتُ سُّوَال* ۔ اللہ کے نزدیک تین شخص نا پسندیدہ لوگ ہیں۔(1) زیادہ باتیں کرنے والا(2) زیادہ مال خرچ کرنے والا یعنی فضول خرچ(3)زیادہ سوال کرنے والا۔ اللہ ان باتوں سے بچائے آمین! حاصل کلام یہ کہ ماہ رمضان تزکیہ نفس و تربیت کا مہینہ ہے خاص کر اس کا آخری عشرہ جس میں ایک طاق رات شب قدر ایسی ہے جو قرآن پاک کے نزول کی رات ہے۔ جو لوگ اس مہینے اور قدر کی اس رات کی برکتوں سے مستفیض نہ ہو پائیں ان کی زندگیوں میں کوئی تبدیلی رونما نہ ہو تو قرآن کے الفاظ میں وہ جانوروں کے مثل ہیں۔۔ *اِنَّہُمْ اِلّا کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ سَبِیْلَا* ترجمہ :وہ تو چوپائے جانوروں کی طرح ہیں بلکہ ان سے بھی گئے گزرے ۔ اللہ کا فضل جس پر جس قدر ہوتا ہے وہ اتنا ہی اس ماہ کی سعادتوں سے بہرہ مند ہوتا ہے۔ *ذَالِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤتِیْہِ مَن یَّشَائُ*  وہ لوگ قابلِ مبارکباد ہیں جنھوں نے اللہ فضل اور توفیق سے اس ماہ کے حقوق کما حقہ ادا کئے اور اللہ کے وعدہ رحمت و مغفرت کے مستحق ہوئے۔ اللہ تمام مسلمانوں کو اپنی مرضیات ” *صراط مستقیم* ” پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے