تحریر: ڈاکٹر محمد اسلم علیگ
شنکر آٹھ سال کی عمر میں تیسری کلاس میں تھا تبھی اپنے والد کے ساتھ نیوز پیپر بیچتا تھا. تیسری کلاس میں اتنا تو پڑھ لیا تھا کہ ہندی اخبار کو پڑھ سکے۔
روزانہ صبح ایک بزرگ نیوز پیپر کی دوکان پہ آتے اور اخبار لیکر وہیں اسٹول پہ بیٹھ کر کچھ دیر اخبار بینی کرتے. انہوں نے شنکر سے کہا بیٹا تم یہاں اپنے والد کی مدد کے لئے اسکول جانے سے پہلے جو وقت لگا رہے ہو اس عمل سے ایشور بہت خوش ہوگا. شنکر کے والد سے کہا کہ تم بھی بڑے خوش نصیب ہو بیٹا تمہارے کام میں ہاتھ بنٹارہا ہے۔
شنکر کو بزرگ کی بات سے حوصلہ ملا اور اس کے باپ کو بھی اندر سے خوشی محسوس ہوئی. انہوں نے کہا چچا جی اسی بچے کی اچھی تعلیم کے لیے ہی ساری محنت کررہے ہیں. میں ڈیوٹی جانے سے پہلے اور بیٹا اسکول جانے سے پہلے اخبار کی اسٹال سے دو پیسے کما لیتے ہیں
ایک دن چچا بزرگ نے دیکھا کہ شنکر بھی اخبار بینی کررہا ہے تو اس کو مشورہ دیا کہ بیٹا خبر کے عنوان سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ خبر کیا ہے اس لیے تم وہی خبریں پڑھو جو حوصلہ والی ہوں. بہت سارے واقعات روزانہ شائع ہوتے ہیں جنکو پڑھ کو سکون ملتا ہے. خود کو بھی کچھ کرگزرنے کا حوصلہ ملتا ہے اور کچھ ایسی بھی خبریں شائع ہوتی ہیں جو پورا دن خراب کردیتی ہیں ایسی خبریں نہ پڑھنا۔
شنکر کے دماغ میں بزرگ کی وہ بات بیٹھ گئی. پھر اسنے زندگی بھر ایسا ہی کیا۔
شنکر کی عمر جس قدر بڑھتی رہی اسی قدر اسے ہر شعبہ ہائے حیات میں یہ دیکھنے کو ملا کہ کچھ لوگ بہت کامیاب ہیں اور کچھ ناکارہ. اس کو یہ احساس ہونے لگا کہ زندگی کے ہر شعبہ میں اچھے افراد کی ضرورت ہے. لیکن وہ تو صرف کسی ایک شعبہ میں ہی کام کرسکتا ہے. دھرم گرو بنے کہ سیاسی گرو، ڈاکٹر بنے یا انجینئر اور نہ جانے کیا کیا خیال اسکو ستانے لگا. ایک دن اسکو خیال آیا کہ پہلے میں اپنے میدان کا ماہر بنوں کچھ کرکے دکھاؤں تب لوگ میری بات بھی سنیں گے اور میرے مشورے کو قدر کی نگاہ سے دیکھیں گے
لیکن مسئلہ یہ تھا کہ اس کا تعلق ایک غریب گھرانے سے تھا. اس لئے کوئی بڑا خواب دیکھنا اس کے لیے مشکل تھا۔
اس کے والد ایک سیٹھ کے یہاں منشی کا کام کرتے تھے. کبھی کبھی کام پہ جاتے وقت وہ شنکر کو ساتھ لئے جاتے. اس کی حرکت و سکنات پہ سیٹھ بڑی گہری نگاہ رکھتے. شنکر کی باتیں سن کر اور اور اس کے آئیڈیاز کو دیکھ کر سیٹھ کو خیال آیا کہ اگر شنکرکو کسی اچھے ادارہ میں پڑھایا جائے تو یہ ایک بڑا سرمایہ بن سکتا ہے
سیٹھ نے شنکر کو اپنی آفس میں بلایا. کہا بیٹا تم نے گریجویشن کرلیا ہے. انٹرینس کی تیاری کرو تمہارا داخلہ آئی آئی ایم میں کرائیں گے. جو بھی فیس ہوگی ہم ادا کریں گے
شنکر نے بڑی بیباکی سے سیٹھ سے سوال کیا اس کے بدلے میں آپ مجھ سے کیا چاہتے ہیں. سیٹھ نے کہا تمہاری یہی وہ ادا ہے جو مجھے بہت پسند ہے. بیٹا مجھے کیا چاہئے، کچھ خاص نہیں بس پڑھائی کے بعد میری کمپنی کو اور اونچائی تک پہنچانے کے لیے اس سے وابستہ ہوجانا. شنکر نے کہا یہ شرط مجھے منظور نہیں ہے. ہاں تعلیم کے بعد میں تین سال آپکی کمپنی میں کام کرونگا اس کے بعد مجھے آزادی ہوگی کہ چاہوں تو آپ کے یہاں رہوں چاہوں تو کہیں اور جاؤں
سیٹھ نے شنکر کی بات مان لی. شنکر نے ایم بی کیا اور انہی کی کمپنی سے وابستہ ہوگیا
جاب کرتے وقت ہی اس نے ایک فاؤنڈیشن بنایا. ملک کے تمام اداروں کے ان افراد کا ڈیٹا تیار کیا جو کم عمری میں ہی کچھ الگ کرگزرنے کا حوصلہ رکھتے تھے
تین سال بعد شنکر نے اپنے ہم خیال دو دوستوں کو اور جوڑا. ٹرائی کور (Tricore) نام کی ایک نئی کمپنی کی شروعات کی
کپنی دن دونی ترقی کرتی گئی اور دوسری طرف فاؤنڈیشن نے نئی نسل کے باصلاحیت افراد کا ایک ڈیٹا تیار کرلیا
فاؤنڈیشن نے ان تمام لوگوں کو فائنانس فراہم کرتی رہی کہ وہ اپنی صلاحیتوں کو بروئے کار لا سکیں
ٹرائیکور نے سوئی سے لیکر جہاز تک بنانے کا پلان کیا اور اس میں کسی حد تک وہ کامیاب بھی ہوئے. کیونکہ انہوں نے ہرمیدان کے ماہرین تیار کرلئے جو بعد میں ٹرائی کور کے لئے مفید بنتے گئے. شنکر سے کسی نے پوچھا یہ خیال آپ کو کہاں سے آیا. اس نے کہا میں ایک اخبار فروش کا بیٹا ہوں اور خود بھی وہ کام کیا ہے. اسی زمانے میں ہمارے محلے کے ایک دور رس نگاہ رکھنے والے بزرگ نے مجھے مشورہ دیا تھا کہ حوصلہ افزا خبریں ہی پڑھنا. میں نے دیکھا کہ بہت سارے باصلاحیت بچوں کی خبریں چھپتی تھیں کہ فلاں بچہ نے یہ چیز بنائی فلاں نے وہ چیز بنائی لیکن غریبی انکو آگے نہیں جانے دیتی ہے کہ وہ کوئی بڑا کام کرسکیں. ہم نے ایسے ہی بچوں پہ کام کیا اور آج ایک بڑی ٹیم تیار ہوگئی ہے. اب انہیں بچوں نے ایک نیا مہم شروع کیا ہے تاکہ جس طرح انکی ہم نے مدد کی وہ بھی کسی کی مدد کرسکیں اس کا نام ہے
ایچ ون ٹیچ ون
Each One Teach One
اگر آپ کو بھی یہ آئیڈیا صحیح لگا تو اپنے گاؤں محلے میں دیکھئے، رشتہ داروں میں دیکھئے کیا کوئی ہے جو اونچی اڑان اڑ سکتا ہے تو اسکے پنکھ فراہم کیجئے