تحریر: نور حسین افضل
اسلامک اسکالر، مصنف، کالم نویس
صدر: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (مشرق وسطی)
متحدہ عرب امارات، جس کو دنیا میں اپنی فلک بوس عمارات پر فخر ہے اور جو مریخ مشن کا بھی آغاز کر چکا ہے، وہ اب میٹاورس کی گہرائیوں میں اپنی پیش قدمی کی امید لگائے بیٹھا ہے۔ اب دبئی ایسی دنیا کو حقیقت میں بسانے رہا ہے، جو اب تک خیالوں میں آباد ہے۔ اس دنیا کا نام ” میٹا ورس” ہے، میٹاورس ایک سائنسی اصطلاح ہے جس پر دنیا کے نامور ترین سائنسی ادارے کام کر رہے ہیں۔
میٹاورس کیا ہے؟ کیا یہ سائبر والڈ میں اب تک کی سب سے منفرد ٹکنیک ہے؟ میٹاورس میں آپ ہر طرح کے ڈیجیٹل ماحول کو جوڑنے والی ورچوئل دنیا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اس کا احساس حقیقی دنیا کی طرح ہی ہوگا۔ اس میں سرحدوں سے پرے اور لامحدود سماجی زندگی کا احساس ہوگا۔Facebook نے اعلان کیا ہے کہ وہ میٹاورس تیار کرنے کے لیے یورپ میں دس ہزار افراد کی خدمات حاصل کرنے جا رہا ہے۔ یہ ایک ایسا تصور ہے جس پر کچھ لوگ انٹرنیٹ کے مستقبل کے طور پر بات کر رہے ہیں۔ دراصل یہ کیا ہے؟
کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ میٹاورس انٹرنیٹ سے بھی آگے کا مستقبل ہو سکتا ہے۔ جیسے 1980ء میں پہلے عام موبائل کے دور کے بعد اب جدید اسمارٹ فون کی ایجاد ہے۔ ان دونوں موبائل میں کتنا نمایاں فرق ہے، کمپیوٹر پر ہونے کے بجائے میٹاورس میں آپ ہر طرح کے ڈیجیٹل ماحول کو جوڑنے والی ورچوئل دنیا میں داخل ہوسکتے ہیں۔ اس کا احساس حقیقی دنیا کی طرح ہی ہوگا۔ اس میں سرحدوں سے پرے اور لامحدود سماجی زندگی کا احساس ہوگا۔
میٹا ورس کو انٹرنیٹ سے آگے کی دنیا قرار دیا جاتا ہے۔ انٹرنیٹ نے دنیا بھر کو ایک گلوبل ویلج میں تبدیل کر دیا ہے، جب کہ میٹا ورس سے دنیا آپ کے کمرے میں آجائے گی۔ آپ جس سے بات کرنا چاہیں گے، وہ ہزاروں میل دور ہونے کے باوجود اس انداز میں آپ کے سامنے ہو گا، کہ آپ اس کا وجود محسوس کر سکیں گے۔ بظاہر یہ باتیں خواب سی لگتی ہیں، لیکن اس سمت تیزی سے پیش رفت ہو رہی ہے، اور اس سلسلے میں کئی ایسے آلات مارکیٹ میں آ گئے ہیں، جو آپ کو ایک اور ہی دنیا میں لے جاتے ہیں، اور آپ خود کو ان کرداروں کے درمیان محسوس کرنے لگتے ہیں، جو حقیقت میں آپ سے بہت دور ہوتے ہیں۔ اس وقت میٹاورس کا دائرہ محدود پیمانے پر ویڈیو گیمز تک ہی ہے، البتہ ماہرین آنے والے برسوں میں اسے حقیقی زندگی کے ایک اہم شعبے کے طور پر دیکھ رہے ہیں۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ آنے والی دنیا میٹاورس کی ہے۔ آپ گھر میں بیٹھے ہوئے یورپ کی کسی بڑی مارکیٹ میں گھوم پھر کر خریداری کر رہے ہوں گے، یا کسی پرسکون، دیدہ زیب، آرام دیدہ، اور خوبصورت مقام پر کچھ وقت گزار رہے ہوں گے۔ یا کسی کانفرنس کے اندر دوسرے شرکا کے ساتھ نشست پر براجمان ہوں گے، یا برج خلیفہ کی سب سے اوپر کی منزل کی کھڑکیوں سے شہر کا نظارہ کر رہے ہوں گے۔ جیسے ہی آپ اپنے سر سے آلہ اتاریں گے تو واپس اپنے ہی کمرے میں موجود ہوں گے، البتہ میٹاورس میں آپ کا سفر خواب نہیں ہو گا، بلکہ اس سفر کے دوران آپ نے جو کچھ کیا ہوگا، وہ فی الواقع حقیقت ہی ہوگا۔ سائنس دان کہتے ہیں کہ میٹا ورس آنے والے برسوں کی ایک سچائی ہے۔ میٹاورس میں کیے جانے والے تمام کام حقیقی ہوں گے، اور دنیا بھر میں کاروبار کا ایک بڑا حصہ میٹاورس پر منتقل ہو جائے گا۔
متحدہ عرب امارت چاہتا ہے کہ جس طرح اسے برج خلیفہ اور میوزیم آف دی فیوچر جیسی شاہکار تنصیبات رکھنے کا اعزاز حاصل ہے، اسی طرح میٹاورس میں کاروبار زندگی چلانے میں اولیت کا سہرہ بھی اس کے سر باندھا جائے۔ اس مقصد کے لیے متحدہ عرب امارت کی حکومت نے میوزیم آف دی فیوچر میں اپنا ایک دفتر قائم کر دیا ہے۔ اس دفتر کے قیام کا مقصد میٹاورس میں دنیا بھر کی کلیدی کمپنیوں کے ساتھ کاروبار کرنا، اور حتیٰ کہ بیرونی حکومتوں کے ساتھ دو طرفہ معاہدوں پر دستخط کرنا بھی شامل ہے۔
متحدہ عرب امارات کے اقتصادی امور کے وزیر عبداللہ بن طوق المری نے میوزیم آف فیوچر میں دبئی میٹاورس اسمبلی کا افتتاح کیا، جو اس سمت کسی حکومت کی جانب سے پہلی پیش قدمی ہے۔اس موقع پر ان کا کہنا تھا کہ ہم نے اپنے ملازمین کو اس طرح کی تربیت دی ہے کہ وہ خود کو میٹاورس کی گہرائیوں میں لے جائیں گے۔ وہ میٹاورس کا استعمال کریں گے، اور میٹاورس کی آنے والی نسلوں کے ساتھ رابطے میں رہیں گے۔
متحدہ عرب امارات کے حکمرانوں کا خیال ہے کہ میٹاورس مستقل کا ایک ابھرتا ہوا شعبہ ہے، جو 2030ء تک قومی آمدنی میں چار ارب ڈالر کا حصہ ڈالنے کے ساتھ ساتھ روزگار کے 40 ہزار نئے مواقع پیدا کرے گا. دنیا جس تیزی کے ساتھ تبدیل ہو رہی ہے، خصوصاً پاکستان اور عموما پوری دنیا کے اسلامی ممالک اگر اسی تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کریں، تو کوئی بعید نہیں ہے کہ وہ دنیا کے چیلنجرز کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ اس سلسلے میں دبئی حکومت کی پیشقدمی قابل تحسین ہے، اللہ تعالی انہیں اپنے مقاصد میں کامیاب و کامران فرمائے۔ اللہ کرے یہ ٹیکنالوجی ملک و ملت اور مسلمانوں کی ترقی کامیابی و کامرانی کا ذریعہ بن جائے۔