تحریر سے ممکن نہ تو تقریر سے ممکن

تحریر سے ممکن نہ تو تقریر سے ممکن
وہ کام جو انسان کا کردار کرے ہے

تحریر: مجیب الرحمٰن، جھارکھنڈ

دنیا سخت بھی ہے اور نرم ، سختی برتنی شروع کر دے تو مضبوط سے مضبوط لوہا بھی ٹوٹ جاتا ہے ، نرمی برتنی شروع کر دے تو سر پر تاج خلعت چڑھا دیتی ہے ، اسی دونوں پہلوؤں کے بیچ اس کا وجود رواں دواں ہے ، آپ کو بارہا مشاہدہ ہوا ہوگا کہ انسانی وجود کے ایک ہی ڈھانچے کو پل بھر میں بھسم کردیتی ہے تو کبھی اسی ڈھانچے کیلیے خود کو سرینڈر کردیتی ہے ، پھر اسی کا گن گانے لگتی ہے اور پھر اس کے خاتمے پر ہمیشہ کیلیے افسردگی کی قبا اوڑھ لیتی ہے ،
دنیا کی پوری تاریخ میں ہمیں یہی دو افراد دیکھنے کو ملتے ہیں،
دنیا میں بڑے بڑے علم والے بڑے بڑے فنکار علمی میدان میں بحر و بر سے ملقب افراد ہمیں ملتے ہیں جو اپنے زمانے کے نابغۂ روزگار تھے، اپنے علم و فنکاری سے دنیا کو لوہا منوایا لیکن دنیا کی نظر میں یہ شان و شوکت ان کا عارضی ثابت ہوا، اس کے چلے جانے کے بعد تمام علوم بھی ان کے ساتھ دفن کردیا گیا،
آپ کے ذہن میں سوال آرہا ہوگا کہ پھر کیا ہے جس کی بدولت انسان دونوں جہاں میں مقبول ہو جاتا ہے؟؟
انسانی زندگی کے تمام خم و پیچ پر غور کریں تو ایک ہی چیز جو انسان کی شخصیت کو چمکاتی ہے نکھارتی ہے وہ کردار و عمل کی طاقت ہے ، یہ ایسا ہتھیار ہے کہ اس بڑا کوئی ہتھیار نہیں ، جو کام طاقت و قوت اوزار و ہتھیار نہیں کرسکتے وہ انسان کا کردار اس کا اخلاق سر انجام دیتا ہے،
اسلام کی چودہ سو سالہ تاریخ پر نظر ڈالیں خصوصاً ابتداء اسلام میں مسلمان نہتے تھے سیف و سنان و یراق سے بالکل عاری تھے، غربت و مفلسی نے جسم کو کمزور کردیا تھا، کھانے کے لالے پڑے ہوئے رہتے تھے، لیکن اسلام کی ترویج و اشاعت میں کوشاں تھے، دشمن طرح طرح کے حربے آزماتا لیکن وہ ایسا اخلاق کا مجسم کردار کا پیکر بنے ہوئے تھے کہ بڑے سے بڑا دشمن بھی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا تھا، قبیلہ طے کا وہ مرد قلند، اسی طرح سے حضرت ابو ثمامہ اس طرح کی اور سیکڑوں مثالیں مل جائیں گی جو صرف حسن کردار کو دیکھ کر جانثاران نبی میں شامل ہوئے،
اللہ رب العزت نے حضور پاک صلی اللہ علیہ وسلم کو جو آیڈیل اور نمونہ پوری انسانیت کیلے بنایا اس میں نمونہ میں سواۓ کردار و عمل کے اور کچھ نہیں ہے،
پیارے پیغمبر نے جابجا اس کی تعلیم دی، اور صحابہ کا یہ معمول تھا کہ جب تک کسی حکم پر عمل نہ ہوجاتا دوسروں کو کہنے سے گریز کرتے،
یہی طریقہ اکابرین کا اولیاء اللہ کا رہا کہ وعظ کرنے سے پہلے خود عمل پیرا ہوتے اور کہتے۔۔۔۔ ہاں اب یہ کام کرو۔۔
مختصر یہ کہ ان کی زبانیں کم عمل زیادہ لوگوں کے درمیان پیش ہوتا، وہ منصوبہ اور وعدے پلاننگ کم کرتے بلکہ کسی بھی کام پر عملدرآمد زیادہ ہوتا،
اس تناظر میں اگر ہم اپنی زندگی کا جائزہ لیں تو ہماری زبان ہمارا قلم زیادہ رواں دواں رہتا ہے اور عمل میں ہم صرف ہوتے ہیں، بڑی اعلی قسم کی تحریریں لچھے دار تقریریں کرکے عوام کو تو متاثر کردیتے ہیں لیکن اپنی ذاتی زندگی کا مشاہدہ کریں تو اس میں صفر نظر آتے ہیں،
ملک کے موجودہ صورتحال پر نظر ڈالیں اور آپسی نفرت و عداوت برادران وطن کے رگ رگ میں جو مسلمانوں کے خلاف زہر پیوست ہو چکا ہے اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم نے ویسا کردار پیش نہیں کیا جیسا کہ ہم سے مطالبہ کیا تھا، ہم جلسے جلوس سیمنار اور قومی یکجہتی کانفرنس میں غرق ہو گئے مقررین و واعظین کی بھرمار لگادی زبان کی شعلہ بیانی اور قلم کی جادوگنی خوب دکھائی لیکن جب بات آتی ہے عمل کی تو سب سے پچھلی صف میں ہمیں نظر آتے ہیں،
آپسی عداوتیں ختم ہو سکتی ہیں نفرتوں کو زوال اسکتا ہے، دوریاں ختم ہو سکتی ہیں دل ایک دوسرے کے قریب ہوسکتے ہیں محبتیں بڑھ سکتی ہیں حالات بدل سکتے ہیں لیکن اس کیلیے جو مؤثر ہتھیار ہے وہ ہمارا کردار ہمارا اخلاق ہے، اگر اسی میں ہم صفر ہیں تو پھر ہماری تحریریں و تقریریں سب فضول اور ردی ٹوکری میں ڈال دینے کے لائق ہے،
میں خود اسی حالات کا مارا ہوا ہوں لیکن سماج و معاشرہ کی زبوں حالی دیکھتا ہوں تو دل لرزنے لگتا ہے اور دل سے یہ صدا آتی ہے کہ تحریروں اور تقریروں کے ساتھ ساتھ ایسا عمل اختیار کرو کہ جس سے خود بخود حالات معمول پر آجائیں،
عزت و آبرو کا داردو مدار بھی اخلاقیات پر منحصر ہے دنیا اسی کو ترجیح دیتی ہے جو حسن اخلاق کا پیکر ہو ورنہ شیطان کو بھی وضو کے فرائض بہت آتے تھے تبحر علمی میں اس کا کوئی ثانی نہیں تھا لیکن آج بھی دنیا اس کو ملعون گردانتی ہے، انسانوں کی بات کریں تو بڑے بڑے فنکار پیدا ہوئے لیکن حسن اخلاق کی کمی اس کے فنکاری کو ہمیشہ ہمیش کیلے باعث لعنت بنادیا۔

خدا وندا صحیح عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے