تحریر: مشرف شمسی
میرا روڈ ،ممبئی
موبائل 9322674787
راہل گاندھی جب بولتے ہیں کہ اس ملک میں دو بھارت بن رہا ہے ایک غریب کا اور ایک امیر کا تو ملک کے زیادہ تر عوام اُنکی بات آج کی تاریخ میں سمجھ نہیں پا رہے ہیں ۔لیکن مذہب کے نشے میں چور عوام کو جلد ہی آنکھ کھلنے لگے گا ۔بھارت گزشتہ ایک سال میں پونے سات لاکھ کروڑ کے قرض میں ڈوب چکا ہے جبکہ دوسری جانب اس ملک کے دو سو ارب پتی کی آمدنی میں اسی دوران دو گنا اضافہ ہوا ہے ۔آج ہی سرکار حمایتی ممبئی کے سب سے بڑا ہندی روزنامھ میں ایک خبر دیکھ رہا تھا کہ منہگائی کی وجہ سے بھارت کی اکنامی سست پڑی۔حالانکہ اس طرح کی خبریں بڑے ہندی اخباروں میں شائع ہونا تقریباً بند سا ہو گیا ہے ۔اخباروں نے خاص کر ہندی اخباروں اور ہندی چینلوں نے عوامی مسائل کو اجاگر کرنا ترک کر چکے ہیں ۔اسلئے تو بی جے پی کو ووٹ دینے والے نوجوان بھی سرکاری نوکری کے امتحانات کب ہونگے ،امتحان پاس کرنے کے باوجود تقرری نہیں ہونے کی شکایت اور امتحان ہو کر امتحان رد ہونے کی شکایت رویش کمار سے اٹھانے کی گذارش کرتے تھے ۔اب تو این ڈی ٹی وی بھی ادانی کے ہاتھ میں چلا گیا ہے اور رویش کمار بھی این ڈی ٹی وی سے استعفیٰ دے چکے ہیں ۔ تو ذرا سوچیں عوامی مسائل کو لے کر سرکار سے سوال کرنا کتنا مشکل سا ہو گیا ہے ۔ سرکار ایک طرح سے عوام کو یہ سندیش دے رہی ہے کہ سرکار جو بھی کچھ کر رہی ہے وہ درست کر رہی ہے اور ملک کو مشکل حالات سے نکالنے کے لئے کام کر رہی ہے۔اسلئے جو بھی چھوٹی موٹی مشکلات آ رہی ہیں اُسے ملک کے لئے برداشت کریں۔ملک کے نوّے فیصدی عوام کو ملک کو مضبوط کرنے کے نام پر سبھی طرح کی قربانی مانگی جا رہی ہیں جبکہ ملک کا ایک چھوٹا سا طبقہ کورونا میں بھی بھر پور کمائی کر رہا تھا ۔اس کی وجہ یہ کہ موجودہ مرکزی سرکار عوام کے نفس کو سمجھ چکی ہے اور جان چکی ہے کہ عوام سے جھوٹے وعدے اور مستقبل کے بڑے بڑے خواب دیکھا کر آسانی سے ووٹ حاصل کیئے جا سکتے ہیں لیکن ملک کے گنے چنے کارپوریٹ کو وعدے کا جھانسہ نہیں دیا جا سکتا ہے بلکہ چناؤ جیتنے کے لئے اُنہیں مسلسل فائدہ کراتے رہنا ہوتا ہے۔ ۔یہی وجہ ہے کہ ایک کے بعد ایک منافع میں چل رہی سرکاری کمپنیوں کو کارپوریٹ کو تھمایا جا رہا ہے ۔بدلے میں کارپوریٹ بی جے پی کا چناؤ میں فنڈنگ کرتے ہیں اور بی جے پی اور سرکار کے خلاف ایسی باتوں کو عوام میں جانے سے روکتے ہیں جو پارٹی اور سرکار کو عوام میں غیر مقبول بناتی ہیں ۔کیونکہ تقریباً سبھی ہندی چینلوں اور بڑے ہندی اخباروں پر انہی کارپوریٹ کا قبضہ ہے ۔کیونکہ عوام کی بات میڈیا میں سنی نہیں جاتی ہیں تو سرکاری سطح پر انکا خوب استحصال ہو رہا ہے ۔سرکاری ملازموں اور سیاسی رہنماؤں کا ایک طرح سے گٹھ جوڑ بن چکا ہے اور اب وہ لوگ عوام کو پریشان کرنے اور اُنھیں لوٹنے میں کسی طرح کا خوف اور ڈر محسوس نہیں کرتے ہیں۔بی جے پی اور اسکے اتحادی سے منسلک سیاسی رہنماء بے خوف ہیں کہ پیسے سے آئندہ ٹکٹ بھی لے لینگے اور اگلا چناؤ بھی جیت جائیں گے ۔اسلئے عام عوام کی ایک شہری حثیت بالکل ختم ہو چکی ہے ۔عوام کی پریشانی سننے والا کوئی نہیں ہے ۔کووڈ کے دوران اور کووڈ کے بعد لوگوں کی آمدنی کم ہو چکی ہے ۔تین کروڑ سے زیادہ مڈل کلاس غریبی حدود میں داخل ہو چکا ہے۔غریبوں کا حال اور برا ہے لیکن اشتہار میں سب کچھ چکا چوندھ نظر آ رہا ہے ۔لیکن راہل گاندھی کی بات میں سچائی ہے کہ ملک کا ایک چھوٹا سا طبقہ ہر طرح کی سہولیات حاصل کر پا رہا ہے اور جسے کچھ بولے بہت کچھ دیا جا رہا ہے جبکہ نوّے فیصدی لوگوں کے درمیان نعرے تقسیم کیئے جا رہے ہیں اور قربانیاں مانگی جا رہی ہیں ۔ ایک نہ ایک دن سرکار کے وعدوں کا غبارہ پھوٹے گا لیکن تب تک بہت دیر نہ ہو جائے اور ملک کو اس کی بڑی قیمت نہ چکانی پر جائے۔اسلئے اب بھی وقت ہاتھ سے نہیں گیا ہے ۔عوام ہوش کے ناخن لیں اور اس ملک کو دو بھارت بننے سے بچا لیں۔