ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
فرد کی سیرت واخلاق کو سنوارنا اسے بہتر رخ فراہم کرنا، بوخیز کی فطرت کا تحفظ، فطری اور وہبی صلاحیتوں کو پروان چڑھانا ،کمال درستگی کی جانب متوجہ کرنا اور اس کی نگہداشت کرنا تربیت کہلاتا ہے ۔
تحسین و تردید
"بچّے میں خود اعتمادی، قوّت فیصلہ، مضبوط قوّت ارادی ،محنت ،لگن ،جہد مسلسل، یکسوئی، بہترین اخلاق وکردار، کامیابی کا یقین کامل، حوصلہ، Commitment, تخلیقی وتنقیدی صلاحیتیں باپ کے کردار سے منعکس ہوتی ہیں” ۔
عام شکایت ہے کہ بچّے نافرمانی کرنے لگے ہیں ۔اپنے کاموں پر توجّہ کی نہیں دیتے۔پلٹ کر جواب دینے لگی ہیں ۔ضدی بن گئے ہیں۔ اپنی بات منوانے والے اور بڑوں کے ادب اور تہذیب کو درجہ نہیں دیتے۔ وغیرہ وغیرہ ۔یہ اقدار کا بحران ہے۔والدین کو چاہیےکہ بچّے کی ضرورتوں،اس کے احساسات Feeling کو سمجھا جائے ۔اسے بھر پوروقت دیا جائے ۔اس کے ساتھ کھیل ،سیر وتفریح اور رشتہ داروں سے ملاقات کے مواقع نکالے جائیں ۔اس کی جبلتوں، خواہشوں اور اس کے میلانات میں نظم و ضبط پیدا کرنے کے لیے مختلف Activities کرائی جائے ۔انتہائی صبرواستقلال اور حکمت سے ان میں پسندیدہ عادتوں کو اختیار کرنے اور ناپسندیدہ عاداتوں کو ترک کرانے کا مزاج بنایا جوئے۔تربیت کے لیے ان کے سامنے خود عملی نمونہ پیش کرنا ہوگا ۔ان کی مصروفیات، مشاغل اور فطری صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع فراہم کرنے ہوں گےتاکہ ان کی بچپن ہی سے غیر محسوس طریقے پر مناسب عملی تربیت ہوتی رہے۔
خواہشات کا بندہ
الله نے انسان کی تمام خواہشات کو پوری کرنے کے لیے یہ دنیا نہیں بنائی ہے۔ اس دنیا میں کچھ ملے گا کچھ کے لیے آخرت میں حصّہ داری ہوگی۔
ہزار خواہشیِں آرائشِ چمن لے کر
نئے چراغ جلے ہیں نئے جتن لے کر
بنیادی خواہشات کی تربیت
اچھا لذیذ کھانا۔اچّھا لباس پہننا۔مال ،عزّت وآبرو کی حفاظت ۔ پیار، محبّت اور اچّھے کاموں پر حوصلہ افزائی ۔جنس مخالف کی طرف رغبت( شادی، بیاہ ،بال بچ)۔
دوسروں پر برتری، فوقیت، اور ادب واحترام کا جذبہ۔
ہم جنسوں کی دوستی، رفاقت ،ہمدری اور ساتھ۔کچھ چیزوں پر بلا شرکت غیرے قبضہ اور تصرف کا حق۔ان سے چین وسکون ملتا ہےاور فرد کی شخصیت متوازن طریقے سے پروان چڑھتی ہے۔
خواہشات کی تکمیل کے بہت سارے طریقے فطرت نے ودیت کر د یے ہیں ۔کچھ پسندیدہ، ناپسند، خوش گوار، اور جائز و ناجائز، حلال وحرام ۔۔خواہشات اپنی تکمیل کے لیے بھر پور زور لگاتی ہیں عدم تکمیل کی صورت میں ذہنی ،الجھن ،غصہ ،نفرت ،کاموجب بن کر شخصیت پر منفی اور بُرے اثرات ڈالتی ہے۔ بہتر ہے کہ حتی الامکان خواہشات کی تکمیل جائز حدود میں کرنے کی طرف توجّہ دلائی جائے ۔جہاں ضرورت کو منہ زور گھوڑے کی لگام کس دی جائے۔ساتھ ساتھ اصلاح کا عمل جاری رہے ۔
جنت تیری پنہاں ہے تیرے خون جگر میں
نفس کو خواہشات کا غلام نہ بنائیے اور خواہشات کو اپنا سب کچھ نہ بنالیجیے. خواہشات ہمیشہ نفع کے طابع رہیں ۔ نفع سے مراد، اخلاق، معاشرت، صحت، آخروی فلاح ہے۔ تمناؤں کی تکمیل جائزاور مناسب ، معروف اور باوقار طریقے سے انجام دی جائے ۔ہر انسان میں ضمیر (نفس لوامہ)ایک منصف ہے جو اسے کشمکش خواہشات میں تربیت اور اچھّی بات کو اختیار کرنے پر آمادہ کرتا ہے۔ نظریہ، تہذیب ،عقل، علم، قوت ارادی، نصب العین، تجربات اسے روکتے اور فیصلہ کرنے پر آمادہ کرتے ہیں۔
خواہشات کی فہرست بڑی طویل اور آدمی کی عمر اور وسائل محدود ہیں ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے مرے ارماں پھر بھی کم نکلے
آدمی خواہشات کا غلام نہ بنے۔جائز ناجائز کے فرق کو واضح رکھے۔مفید کاموں کے لیے جدوجہد کیجیے۔ہمیشہ نفس کے طابع اور شیطان کے چکّر سے نکلنے کی کوشش کیجیے۔
الله دے دعا کرتا رہے ۔اچھوں کی سنگت اختیار کرے۔ آخرت میں احساس جواب دہی اور خدا دیکھ رہا ہے یہ یقین ہمارے دل میں واضح طور سے رہیے ۔شرم وحیا ،وقار و عظمت ،عالی ظرفی،پامردی ،استقلال ،سلیقہ اور حقوق کی ادائیگی کا پاس رکھے۔
رب چاہی زندگی گزارنے کا ادراک اور استحضار رہے۔ خواہشات کا بندہ بن کر زندگی نہ بسر کی جائے۔
"بچاؤ اپنے آپ کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگسے۔”(التحریم:6)
زمانہ الٹ پھیر کا نام ہے
آپ کو اپنے بچّوں کی روز مرّہ ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ان کی تربیت کے لیے وقت فارغ کرنے اور ان کی تربیت کرنے کے ہنر کو بھی سیکھنے کی ضرورت ہے ۔اب بچّے جس Generation میں آنکھ کھول رہے ہیں وہ اپنے ساتھ بہت سارے مواقعوں کے ساتھ ساتھ بہت سارے موانعات جیسےفحاشی، عریانیت فیشن، نئے نظریات اور نقطہ نظر کو بھی پروس رہے ہیں ۔تہذیبوں کا تصادم بھی ایک بڑا چیلنج ہے ۔مخلوط معاشرہ، مخلوط تعلیم اور کلچر بگاڑ کی طرف لے جانے میں مدومددگار ثابت ہورہاہے Teenageers صنف مخالف سے دوستی بڑھانے لگے ہیں ۔دوسروں تہذیب اور ہمارے معاشرے کے فرق کو بھول بیٹھے ہیں ۔ایسے میں گھریلو تربیت ہی اچھّے بتائج دے سکتی ہے۔خدا سے بغاوت، مذہب بیزاری، اخلاقی قدروں کی پامالی کرکے پروان چڑھنے والے افراد انسانیت کے حق میں برے ثابت ہوتے ہیں۔مادّہ پرستی اور خود غرضی ان سے جو ہر انسانیت صلب کر لیتی ہے۔وہ سماج کا ناکارہ حصہ بن جاتے ہیں ۔
کبھی محنت کا صلہ اپنی نہ پایا ہم نے
چھاؤں اوروں کو ملی پیڑ لگایا ہم نے
(عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری کی زیر تصنیف کتاب پرورش کا فن Art of pearanting سے ایک مضمون )