ہمارے لیڈرس

ازقلم: مدثر احمد، شیموگہ
9986437327

جو مسلمان اس ملک پر 6 سو سال سے زیادہ عرصے تک حکمرانی کرتے رہے وہیں مسلمان آج حکومتوں میں معمولی جگہ بنانے میں ناکام ہوچکے ہیں ، ایسا نہیں ہے کہ مسلمانوں میں قائدانہ صلاحیت نہیں ہے اور نہ ہی ان میں عقل ہے ، دوسری قوموں کے مقابلے میں مسلمانوں کے پاس صلاحیت اور عقل زیادہ ہے لیکن اسکا استعمال محدود ہوچکاہے اور مسلمان محدود معاملات میں ہی اپنے آپ کو پیش کررہے ہیں ۔ ہماری قیادت کرنے والوں میں دو طرح کے لوگ ہیں ، ایک مسجدوں کی حد تک تو دوسرے پولیس تھانوں کی حد تک ۔ مسجدوں کی قیادت کرنے والے اپنے آپ کویم یل اے ،یم پی بنا چکے ہیں اور مسجد کے خادم کے عہدے کو یم یل کا عہدہ بنا چکے ہیں ۔ جبکہ دوسری کیٹیگیری پولیس تھانوں میں لیڈر گری کرنے والوں کی ہے ۔ جبکہ مسلمان اپنے آپ کو پر امن ، ایماندار اور جرائم سے پاک مانتے ہیں اور چند ہی لوگ جرم کی دنیا میں ہوتے ہیں اور ان چند لوگوں کی وجہ سے آج ہماری قیادت پولیس تھانوں کی قیادت بن چکی ہے اسکے علاوہ انہیں کوئی اور ڈیپارٹمنٹ یا حلقہ دکھائی نہیں دیتا۔ آپ اپنے اطراف و اکناف بہت سے لیڈروں کو دیکھتے ہونگے ، کبھی ان لیڈروں سے سوال کریں کہ آپ کے علاقے کا تحصیلدار کون ، ویلیج اکائونٹنٹ کون ہے ، میونسپل کمشنر یا سی او کو ن ہے ، ڈپٹی کمشنر کون ہے ۔وہ آپ کو اس سوال کا جواب معلوم نہیں میں دینگے ۔ جبکہ انہیں لیڈروں سے پوچھیں کہ آپ کے تھانے کا انسپکٹر کون ہے ، ڈی یس پی کون ہے ، یس پی کون ہے تو فوراََ آپ کو معلوم ہے میں جواب ملے گا اور کم وبیش اس آفیسر کا بائیوڈیٹا بھی مل جائیگا کہ وہ کون ہے ، کہاں سے آیا ہے ، اسکی ذات کونسی ہے وغیر ہ وغیر ہ ۔ سوال یہ ہے کہ جب مسلمانوں کا تعلق سے کرائم سے نہیں ہے اور نہ ہی مسلمانوں کو روزانہ پولیس تھانے میں آنا جانا نہیں ہے تو ہمارے لیڈر وہاں کیا کررہے ہیں ۔ جبکہ مسلمانوں کے مسائل تو تحصیلدار ، کمشنر ، ویلیج اکائونٹنٹ ، فوڈ ڈیپارٹمنٹ اور ڈی سی و اے سی سے جڑے ہوئے ہوتے ہیں اور یہی لوگ تو گائوں اور شہر وں کا انتظام کرتے ہیں ، نالے بنانے سے لے کر راشن کارڈ فراہم کرنے تک کی ذمہ داری انکی ہوتی ہے ۔ لیکن مسلم لیڈروں کو نہ انکا نام معلوم رہتاہے نہ ہی انکے دفتروں کا پتہ معلوم ہوتاہے۔ ایک حقیقی لیڈرکی شناخت ان محکموں میں ہونی چاہئےنہ کہ پولیس اسٹیشن میں ۔ درحقیقت آج مسلم لیڈران پولیس کی چاپلوسی کرنے، مخبری کرنے اور آئو بھگت کرنے کے عادی ہوچکے ہیں ۔قیادت چاپلوسی کانام نہیں ہے بلکہ حق مانگنے کا نام ہے اور حق وہاں مانگا جاتاہے جہاں پر قوم کو ضرورت ہے ۔ پولیس تھانے قوم کی ضرورت نہیں بلکہ مجبوری ہیں ۔قائدین پولیس کے دوست نہ بنتے ہوئے عوامی سہولیات کے مقامات پر اپنا رسوخ قائم کریں.

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے