ازقلم: عبدالعظیم رحمانی ملکاپوری
9224599910
بچّوں کی زندگی میں سب سے زیادہ متاثر کن شخصیت ان کے والدین ہوتے ہیں۔اور والدین کی زندگی کا سب سے بڑا حاصل اور نعمت ان کی اولاد ہوتی یے۔بچّوں کی شخصیت میں والدین اس طرح سے رنگ بھرتے ہیں کہ وہ قوس قزح ،دھنک رنگ اور کیوڑے کابن بن کر مہک اٹھتے ہیں۔
کہ روشن زخورشید باشد جہاں
( جیسے سورج سے جہاں روشن ہوتا ہے)
ان کے اخلاق واعادات،ان کا vision بصارت نظر، جمالیاتی آہنگ Harmony خیالات، میلانات،تصورات،جذبات پر گہری چھاپ چھوڑتے ہیں۔
پرورش کے سنگ ہائے میل
(1)والدین Spouse کے فرائض اور ذمہ داریاں ……
(2) بچوں کی اچھّی ،بُری عادات اور ان کی بروقت اصلاحات کی تدابیر ۔۔۔
(3) مہذب بچے سرمایہ خاندان ۔۔۔۔۔۔
(4) شخصیت کی تعمیر وتشکیل میں تربیت کا مقام ۔
(5) خاندان میں مشاورت کا عملی نظام
یاد رکھو! تم ذمّہ دار ہو اور سب سے ان کی رعیت کے بارے میں باز پُرس ہوگی۔(بخاری)
میاں بیوی (زوج) کی خوش گوار زندگی میں جب بچہ داخل ہوجاتا ہے تو فرائض اورحقوق، تربیت وتعلیم کے مراحل شروع ہوتے ہیں۔
زوجین کے لیے راہ نما اصول
(1) گھر کے ماحول کو ہر طرح کی کشیدگی، بے اطمینانی اور کشمکش سے دور رکھیے۔وہ بچّے اچّھی طرح پروان چڑھتے ہیں جو ماں باپ کے خوش گوار ازدواجی تعلقات کے سایے میں نشو ونما پاتے ہیں ۔
(2) والاین کے درمیان آپس میں بحث وتکرار، جھگڑا،دونوں طرف سے مباحثے، ایک دوسرے کے ساتھ بد تمیزی، چیخنا چلانا، آپے سے باہر ہوجانا، ہاتھ اٹھانا، بُرے الفاظ کا استعمال، ترکی بہ ترکی جواب،سوزش قلب، اور بے اعتمادی ہو، گالم گلوچ ہو وہاں بچے پر ذہنی اور نفسیاتی طوربُرا اثر پڑتاہے ۔ انتشار ،ذہنی الجھن، دلی کوفت، تناؤاور اس کی حساسیت سے اس میں غیر محفوظ پن ،خوف اور احساس کمتری پیدا ہوجاتا ہے ۔
(3) خاندان کے لوگوں کی بُرائی اور ان کے منفی روّیہ پر تبصرہ بچوں کے سامنے بھولے سے بھی نہ کیجیے۔ ان کے رخصت ہونے کے بعد گلہ، شکوہ، شکایات، عیب چینی کرنے سے بچّوں کے دلوں میں رشتہ داروں سے بُرائ، نفرت اور دشمنی بیٹھ جاتی ہے اور رشتے میں دراڑ پڑ جاتی ہے۔بڑے ہونے پر وہ ان کا ادب واحترام نہیں کرتے اور رشتے نہیں نبھاتے۔۔
(4) بچّوں کو نادان سمجھ کر ان کے سامنے خصوصی ازدواجی تعلقات کا مظاہرہ ہر گز نہ کیجیے۔تنہائ کے سبق کو ملحوظ رکھیے ۔اگر احتاط نہ برتی گئی تواس سے بچّے پر بُرا اثر پڑے گا۔آپ کا وقار، رعب دبدبہ اور احترام ختم ہو جائے گا۔بچّے کا جنسی تجسس بڑھےگا۔
(5) آپ اپنےبچوں کو جیسا دیکھنا چاہتے ہیں خود اس کاعملی نمونہ پیش کیجیے-آپ ان کے لیے آئین ہیں جا میں وہ اپنا عکس دیکھتے ہیں ۔گھر میں مشاورت سےاپنے وسائل اور احداف کو پیش نظر رکھتے ہوئے لمبی مدت کا منصوبہ Long term planning بنائیے۔
(6)شوہر کا ملازمت سے گھر آجانے کے بعد موبائل فون سے چپکے رہنا اور بیوی کا TVسریل میں کھوئے رہنا درست نہیں ۔ گھر میں موجود زندہ کتاب کے جذبات واحساسات کو پڑھیے۔ انھیں ان کے رشتہ کے مطابق بھر پور توجہ، وقت، پیارمحبت، تربیت، احتساب کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل ومشاغل میں عملی شرکت کیجیے۔
(7) اپنے اہل وعیال کی خیرو صلاح اور دین داری، فلاح آخرت کے لیے گڑگڑا کران کی اقبال مندی ،فرمابردقری،توفیق الہیٰ دین کی گہری سمجھ اور شیطان کے شر سے حفاظت کے لیے الله سے ہر وقت دعائیں کیجیے۔
(8)آپ کے بچے الگ الگ وقت میں مختلف موڈ اور مزاج کے حامل ہوتے ہیں ۔ جیسے خوشی، غم، غصے، نفرت، خوف، تعجب، تجسس وغیرہ ۔آپ انھیں منظوری Validation
دیں۔ان کے جذبات کو قبولیتAcceptance عطا کریں۔ان کے ساتھ دوستانہ روّیہ رکھیے۔
قابل لحاظ امورِ تربیت
(1) بچوں کے ساتھ یکساں شفقت کیجیے۔ترجیحی سلوک کی بجائے تمام بچوّں کو ایک نظر سے دیکھیے۔
positive interactions with children.
(2) گھرمیں بہن بھائیوں سے یا Class mate کی کامیابی، صلاحیتوں، عباقرہ Genius، صحت مندی، strength, اثر پذیری Passion, کا موازنہ نیچا دکھانے، عار اورغیرت دلانے، ندامت کرنے کے لیے کبھی بھی نہ کیجیے۔
(3) بچّے کے دوستوں اور ہمجولیوں کے سامنے اپنے بچّے کو شرمندہ نہ کیجیے ۔اس کے د وستوں کے، سامنے اس کی توہین ،طنز یا جسمانی سزا کبھی نہ دیجیے۔
(4) مہمانوں، دوستوں کے سامنے اپنے بچّوں کی کوتاہیوں، شرارت کا رونا مت روئیے۔ بلکہ ان کی قابل قدر خوبیوں کا تذکرہ احسن اندازمیں پیش کیجیے۔
(5)پانچ سال تک بچّے خصوصی نگہداشت چاہتے ہیں ۔وہ بنیادی تعلیم اور اخلاقیات کے طور طریقے سیکھتے رہتےہیں ۔ بچہ سات سال کا ہو تو نماز پر اکسائیں۔دس سال کا ہو تو اس کا بستر الگ کردیں۔بار برس کو پہنچے تو اس کی حرکات پر نظر رکھیے ۔۔(6)بچوں کے ساتھ اپنا رویّہ مشفقانہ اور نرم رکھیں۔عفوو در گزر سے کام لیجے۔غلطیوں پر ٹوکیں، کوتاہیوں کے اسباب تلاش کر کے فوری اصلاح کی کوشش کریں۔ نافرمانی، ہٹ دھرمی، بدتمیزی پرضرورت محسوس ہو تو ہلکی پُھلکی سزا بھی دیں لیکن جلد ہی حُسن سلوک سے اس کی تلافی کردیں۔
(7)اپنے بچّوں کو عمر کے اعتبار سے کچھ ذمّہ داری اور Task دیجیے۔ درمیان میں اور پروجیکٹ پورا ہونے پر بھر پورحوصلہ افزائی اور خوب شاباشی وکام کی خوش اسلوبی پر دل کھول کر سراہیے۔مناسب تحفہ وانعام دیجیے۔اپنے بچّے کو سادہ لکین منظم زندگی گزارنے کے ساتھ ساتھ محنت ومشقت کا عادی بنائیے ۔بہت نازک، چھوئی موئی، بزدل، ڈرک پوک نہ بنے دیجیے۔
(8) اپنے زیر تربیت سے کوئی لغزش، غلطی، کمزوری سرزد ہوجائے یا کبھی اسے سزا ملی ہو تو اسے بار بار یاد نہ دلائےنہ ہی دوسرے (دوست، بہن بھائیوں ،کزن )کے سامنے ان کو طعنہ دے کر شرمندہ نہ کیجیے۔اس سے ان پر نفسیاتی اثر پڑتا ہے اور وہ ہمیشہ guilty consciousness میں رہتا ہے ۔زیر تربیت سے ان کے معاملات میں مشاورت بھی کیجیے۔اس سے ان کے ذہن کو پڑھنے کا موقع بھی ملتا ہے اور انُھیں اپنے قد کے بڑھنےکا خوشیوں بھرا احساس بھی ہوتا ہے۔
(9) کوئی بھُول، قصور، غلطی، چوک یا نقصان ہوجائے اور معافی مانگ لیں، بتادیں، نادل ہوجائیں تو درگذر سے کام لیجیے۔احسان پر شکریہ ادا کرنےکاعادی بنائیے ۔
(10) گھر میں بچے کے لیے پر امنومحبت اور احترام کا خوش گوار اور مطبوط قدروں کی نشونماکیجیے۔
(11)افراد خانہ کےتعمل کےذریعاس کو صحیح اور غلط کے متعلق مناسب شعور کا حامل بنائیے۔
(12) بچے کو یقین ہو کہ اس کی بات توجہ سےسنی جاتی اوراس کی ضرورت پوری ہوتی ہے۔اس کی ہر معاملے میں مدد کی جاتی اور تائید وتعاون ملتا ہے۔۔(13 بچّوں کی کوتاہیوں پر قابو پانے کے لیے تنہائی میں پہلےاس کی خوبیوں کو سراہتے ہوئے اس کی خامیوں کا عمومی انداز میں تذکرہ کیجیے۔اس کے لیے حکایتی انداز اختیار یار کیجیے۔مناسب واقعہ، قصہ ،تجربات سنائیے۔اس طریقہ تربیت سے راست اس کی عزت نفس مجروح نہیں ہوتی اور وہ اپنی کوتاہی کو سمجھ لیتا اور جلد اصلاح کے لیے آمادہ ہوجاتا ہے۔ ہمارے رسول صلی الله عليه وسلم کے طریقہ تربیت کا یہی انداز تھا جو بہت متاثر کن تھا۔ماہرین نفسیات کے نزدیک ینبھاتے۔۔اچّھے نتائج لاتا ہے۔
(عبدالعظیم رحمانی کی زیر تصنیف کتاب پرورش کا فن Art of Parenring سے ایک مضمون)
abdulazimmku@gmail. com
9224599910