ہر صبح اک عذاب ہے اخبار دیکھنا


تحریر: محمد ریحان ورنگلی

اسلام ایک قدیم اور ابدی مذہب ہے جو نہ فانی ہے نہ جانی ہے اس مذہب کو مٹانے کی ہر زمانے میں ہر ممکن کوشش کی گئی ہے ؛ لیکن ایک مشہور مقولہ کے بقول کہ جسے خدا رکھے اسے کون چکھے کوئی نہ اسلام کو مٹا سکا اور نہ مٹاسکتا ہے اور نہ مٹاسکے گا، یہ ایک ایسا دین ہے جس کے محبوب و مقبول ہونے کا ذکر خود اللہ نے اپنے کلام پاک میں فرمایا ان الدین عند اللہ الاسلام کہ دین اسلام ہی اللہ کے نزدیک قابل و مقبول، لائق و فائق ہے اس کے علاوہ کوئی مذہب اور کوئی دین نہ قابل ہے نہ مقبول ہے اور اس مذہب کی پیروی کرنے والوں کو کنتم خیر امة کے القاب سے ملقب فرمایا اور مزید یہ کہ اس مذہب کے متبعین کو امت وسطی سے بھی نوازا ہے جو کہ افراط و تفریط سے بالاتر ہوکر اعتدال کو پسند کرتی ہے یہ ایسا دین ہے کہ جس کے نتیجے میں بے حوصلوں کو حوصلہ افزائی، اور بے شعوروں کو شعوری، نادانوں کو دانائی، بے غیرتوں کو غیرت مندی، بے پناہوں کو جاۓ پناہ ملی، اس دین کی خصوصیت یہ ہے اس کا واضع رب العالمین اور کا مرسل رحمة للعالمین اور اس پر منزل شدہ ھدی للعالمین ہے، اس دین نے صحابہ کو جو کہ زمانہ جاہلیت میں بے نور تھے اصحابی کالنجوم کے لقب سے نوازا، اور رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ کے لقب سے مشرف فرمایا، جب اسلام آیا تو غیروں کے ساتھ ہمدردی، مقروضوں کی امداد، پڑوسیوں کے ساتھ حسن سلوک، چھوٹوں کے ساتھ، شفقت بڑوں کا ادب و احترام، حق و باطل کا امتیاز، حلال و حرام کی تمیز جیسی چیزوں سے بہرہ ور ہوگئے، یہ دینِ اسلام کا ہی نتیجہ تھا کہ صحابہ پر ظلم و ستم کے پہاڑ ڈھاۓ جانے کے باوجود وہ صرف اسلام کا ہی پرچم لہراتے تھے، ایمان کی خاطر تپتی ہوئی ریت میں لیٹنا پسند کیا، ایمان کی خاطر مال و وطن کو چھوڑنا پسند کیا، ایمان کی خاطر اپنے آپ کو شہید کرنا پسند کیا؛ لیکن کبھی بھی باوجود یہ کہ انہوں نے اتنی صعوبتیں براشت کیں ارتداد کے بارے میں ان کے ذہن ودماغ میں تک نہیں آیا اس کی بنیادی وجہ یہی تھی کہ ان کے دلوں میں خوفِ خدا اور حبِ رسول اپنی انتہا کو پہنچ چکا تھا، جب آپﷺ کی وفات ہوئی تو چند لوگ مرتد ہوگئے تو حضرت ابوبکر تلوار لے کر یہ کہنے لگے کہ اینقص الدین و انا حی کہ میں زندہ رہوں اور دین میں کمی آجاۓ ایسا ہر گز نہیں ہوسکتا، دیکھئے! صحابہ کو خود کا تو دور دوسروں کا مرتد ہونا بھی گوارا نہ تھا مگر ؎
واۓ ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
مسلمان اسلام کی تعلیمات کو طاق نسیاں کررہے ہیں جس کے نتیجے میں غیر مسلم اسلام کے جامع و منصوبہ بند ہونے کے باوجود اس پر طرح طرح کے اعتراضات اٹھارہے ہیں مزید برآں کہ اسلام کی صحیح تصویر کو دھندلا کرکے قوم مسلم کی شبیہ خراب کررہے ہیں غرضیکہ اسلام مخالفین کی داستاں کی کوئی کمی نہیں ہے ؎
حلقہ کئے بیٹھے ہو اک شمع کو یارو
کچھ روشنی تو باقی ہے ہر چند کہ کم ہے
آج ہر روز اخبار میں ارتداد کے بے شمار واقعات پڑھنے کو مل رہے ہیں،ہر روز ہر صبح ہر گھنٹہ ہر اخبار ارتداد ارتداد گویا؎ ہر صبح ایک عذاب ہے اخبار دیکھنا ارے سونچو تو صحیح ! بات ارتداد تک پہنچ کیوں رہی ہے اس کی وجہ کیا ہے؟ اس کے ذمہ دار کون ہیں؟ تو سنتے چلئے! آج معاشرے میں مشہور ہوگیا کہ آرایس ایس کے لوگ ایک تنظیم بناکر اس میں ہندو نوجوان لڑکوں کو اردو سکھا کر مسلمان بچیوں کو اپنے دامن فریب میں پھنسانے کی ہر ممکن کوشش کررہے ہیں اور ان بچیوں کو مرتد کرکے ان سے نکاح کے ایک سال بعد یا بچہ ہونے کے بعد طلاق دے رہے ہیں، اب وہ جاۓ تو کہاں جاۓ کس کے پاس جاۓ گویا کہ اس کا قصہ یوں ہوچکاہے ؎
نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
اس کی بنیادی وجہ تعلیم سے ناواقفیت ہے اور اس کے ذمہ دار والدین ہیں کہ انہوں بچپن ہی سے آزادی نسوان کے نام پر اپنے بچیوں کو آزادی کا عادی بنایا، آزادی نسوان کے نام پر ایسا جادو چڑھایا کہ سب اس کے اسیرِ بے دام بن گئے، اگر والدین بچپن ہی سے اپنے نونہالوں کی نشو و نما اور پرورش اسلامی ہدایات کے مطابق کرتے اور انہیں اسلامی تعلیمات سے بہرور کرتے تو نوبت یہاں تک نہیں پہنچتی؛ لیکن آج کل کے ماں باپ تو اپنی مصروفیات میں سرگرداں ہیں، نہ انہیں احکام ربانی کی پرواہ ہے، نہ تعلیمات نبوی کو بجا لانے کی فکر، نہ اپنے نونہال بچوں کی فکر، ماتم کرنے کو جی چاہتا ہے کہ کیسے ہم اپنی اولادوں کی تربیت کررہے ہیں ہمارے انبیاء و اولیاء نے کیسی تربیت کی تھی ایسی تربیت کہ کوئی پیٹ سے کوئی تیس دن میں کوئ ساٹھ دن میں حافظ بن جاتا، اور کس طرح انہیں دین کا پابند بنایا، کیا آپ نہیں چاہتے کہ۔۔۔۔۔ ایک بڑا مجمع ہو اور اس میں ایک امام امامت کررہا ہوں اور تمام لوگوں کا ثواب اس اکیلے امام کو پہنچ رہا ہے۔۔۔۔۔۔ اس امام کی جگہ پر آپ کا اپنا بیٹا ہو، آپ کا جی کیوں نہیں چاہتا، آپ کی غیرت کیوں گوارا نہیں کرتی کہ میرا بچہ نبی اور صحابہ کے اسوے کو اپنائے، اور بچیاں حضرت فاطمہ و عائشہ کی سیرت کو اپنا آئیڈیل بنائیں، یہ آرزو کب پیدا ہوگی کہ اپنے بچوں کو اسلام کے بنیادی عقائد سکھائیں، کیوں آپ کا دل نہیں چاہتا کہ اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کرائیں، آج کا فلسفہ مدارس کے سلسلے میں عجیب ہوگیا کہ لوگ کہتے ہیں کہ مولوی بہت کھاتے ہیں جب ان سے کہا جاۓ کہ اپنے بچوں کو مدارس میں داخل کراؤ تو کہتے ہیں کہ مدرسے میں پڑھے گا تو بچہ کہاں سے کھاۓ گا، لہذا امت مسلمہ کے بھائیوں بہنوں! چھوڑ دو سستی اور کاہلی کو، خواب غفلت سے بیدار ہوجاؤ، اپنے ارادوں کو پختہ کرو، کیونکہ مشیتِ خداوندی بھی نیتوں پر ہوتی ہے انما الاعمال بالنیات کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے؎
عزائم جن کے پختہ ہو نظر جن کی خدا پر ہو
تلاطم خیز موجوں سے وہ گھبرایا نہیں کرتے
اب ضرورت ہےکہ معاشرے کی اصلاح کی جاۓ اس کے لئے سب میدانِ عمل میں کود پڑیں، چاہے وہ عالم ہو یا جاہل، چاہے وہ مرد ہو یا عورت، چاہے اس میں تفقہ فی الدین ہو یا نہ ہو، تب ہی اصلاح ہوگی۔ اصلاح کا طریقہ یہ نہیں ہے کہ گھر بیٹھے بیٹھے واٹس ایپ اور سوشل میڈیا پر پوسٹ شئیر کریں کہ آج اتنے لوگ مرتد ہوۓ، اس سے کچھ تبدیلی آنے والی نہیں ہے اب وقت ہے فیلڈ ورک میں اتر کر عمل کرنے کا، اور امت کے ہر ہر فرد کی ذمہ داری ہے چاہے وہ علما ہو عوام ہو کہ منظم مکاتب قائم کریں، میرے بھائیوں! امت پر وقت بہت برا آنے والا ہے؛ بلکہ آچکا ہے، بقول نمونہ اسلاف حضرت مولانا عبد القوی صاحب دامت برکاتہم کے کہ "تقسیم ہند کے وقت بھی مسلمانوں کے اتنے حالات نہیں تھے جتنے آج ہیں” لہذا ابھی سے جد و جہد کرو کہ ملت کے ہر ہر گھر میں اور ہر ہر فرد کو اسلامی عقائد سے واقف کرائیں، اور علما سے گزارش ہے کہ وہ دور جاچکا ہے پیاسا کنویں کے پاس آۓ گا، کہ ہر فرد مدارس اور علما کے پاس آۓ گا اور دینی معلومات کرے گا، اب وقت ہے ابر بننے کا ابر ہر جگہ جاکر پانی برساتا ہے، لہذا علما بھی ہر جگہ جاکر دین کو پھیلائیں، تب جاکر دین و ایمان کی سلامتی کا سامان بن سکتا ہے، ورنہ تو اللہ کے نبیﷺ کے پیشین گوئی کے مطابق کہ ” ایک دور ایسا آۓ گا کہ جس میں شام کا مسلمان صبح ہوتے ہوتے کافر ہوجاۓ گا اور صبح کا مسلمان شام شام ہوتے ہوتے کافر ہوجاۓ گا” (مفہوم) وہ دور آچکا ہے اب ذمہ داری آپ کے ہاتھ میں ہے۔ خلاصہ یہ کہ ؎

اٹھ کہ اب بزمِ جہاں کا اور ہی انداز ہے
مشرق و مغرب میں تیرے دور کا آغاز ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے