دفعہ 44 کو نافذ کرنا بھارتی باشندوں کو ذہنی کشاکش میں مبتلا کرنا ہے
تحریر: محمد عبدالحفیظ اسلامی
9849099228
mahafeez.islami@gmail.com
ہندوستانی معاشرہ مختلف مذہبی اکائیوں پر مشتمل ہے لہٰذا ایسے معاشرے میں یکساں سیول کوڈ کا مطالبہ ناقابل قبول ہی ہوگا۔ اس لئے کہ ملک کا قانون ایک طرف ہانک لے جائے گا تو دوسری جانب اس کا اپنا مذہب اپنے طرف کھینچے گا۔ اس طرح مذہب پر چلنے والا آدمی ذہنی کشاکش میں مبتلا ہوکر رہ جائے گا۔ یعنی مذہبی قانون کی بالادستی ایک طرف دیوار سے لگادی جائے گی تو دوسری طرف قانون کا ڈنڈا اپنے ہاتھ میں لے کر قانون نافذ کرنے والے ہر طرف نظر آنے لگیں گے۔ اس سلسلہ میں خاص طور پر مذہب اسلام کے ماننے والے لوگوں پر کیا کچھ گزرے گی اس کا اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں ہے۔ اس قانون کے نافذ ہوتے ہی مسلمان سب سے پہلے ذہنی عذاب میں مبتلا ہوجائیں گے اس لئے کہ حقیقی کامیابی کے لئے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ انسانی فطرت کی رہنمائی کریں گے اور فطرت انسانی کے عین مطابقت رکھنے والے قوانین کی طرف بلائیں گے تو دوسری جانب جبر کے ساتھ ان پر مسلط کردیا گیا قانون ملکی کسی اور طرف لیجارہا ہوگا۔ اس طرح مسلمانوں کا عملی ارتداد جبر کے ساتھ کروایا جائے گا۔ ارتداد کے راستے پر مسلمانوں کے چلنے کی چند مثالیں درج ذیل ہیں۔
اگر کوئی شخص کسی معقول وجہ سے اپنی بیوی کو طلاق دے دیتا ہے جیسا کہ اسلامی قانون کی رو سے اجازت ہے لیکن یکساں سیول کوڈ کہے گا کہ کورٹ کی اجازت کے بغیر طلاق کا کوئی اعتبار نہیں حالانکہ طلاق واقع ہونے کے بعد وہ عورت قانونِ خداوندی کے تحت حلال باقی نہیں رہتی۔ لیکن عدالت سے اجازت لئے بغیر کوئی شوہر اپنی بیوی کو طلاق دے دے تو عدالت اسے غیر موثر ٹھہرائے گی اور مرد سے کہے گی اور دباؤ بھی ڈالا جائے گا کہ وہ عورت سے ازدواجی رشتہ قائم رکھے۔ اگرچہ اسلامی قانون اور فیصلہ کی رْو سے تو طلاق واقع ہوچکی ہوگی اور اس کے بعد عورت سے (اب تک ساتھ رہے) شوہر کا ازدواجی رشتہ ختم ہوگیا ہوگا اور اس کے بعد (سابق) شوہر سے عورت کا ارتباط حرام اور زنا کے حکم میں داخل ہوچکا ہوگا۔ اس کے ساتھ ہی وہ تمام حقوق جو زوجین کو اسلام نے عطا کئے ہیں وہ بھی ختم ہوجاتے ہیں۔ اور یہ ایک دوسرے کی وارث بھی باقی نہیں رہتے۔ ان حالات میں بھی ملک کا قانون سیول کوڈ ان دونوں کو زبردست باندھے رکھے گا اور اس کے ذریعہ جو اولاد ہوگی اسے بھی جائز قرار دے گا اور وراثت کے جو حقوق ہیں ان ناجائز اولاد کو دلائے گا (جس طرح ایک جائز اولاد کا حق ہوتا ہے) دوسری چیز اگر کوئی شخص اسلام قبول کرلے اور اسی طرح کوئی مسلمان مرد مرتد ہوجائے تو ازروئے قانون اسلامی ان کی بیویاں ان کے لئے حلال باقی نہیں رہتیں اور نہ یہ ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں لیکن رائج الوقت ملک کا قانون (یکساں سیول کوڈ) یہ کہے گا کہ تبدیلی مذہب سے وراثت کے حقوق پر کوئی اثر نہیں پڑتا اور نہ ہی ازدواجی رشتہ میں کوئی خلل واقع ہوگا۔ اس طرح ایک آدمی کو اسلام قبول کرنے کے باوجود بھی اپنی کافرہ بیوی سے رشتہ ازدواج قائم رکھنے کے لئے دباؤ ڈالا جائے گا اور یہ اسی طرح کسی مسلم عورت کو اپنے مرتد شوہر کے ساتھ زندگی بسر کرنے کے لئے مجبور کردیا جائے گا۔ جبکہ مرتد ہونے کی وجہ سے اسلامی قانون کی رو سے شریعت کی نگاہ میں ازدواجی رشتہ ختم ہوچکا ہوگا۔ یہ الفاظ دیگر مذہب اور اس کے ضابطے ایک الگ چیز ہوں گے اور ملک کا ایک الگ ہی قانون ہوگا۔
اسی طرح بین فرقہ جاتی شادیوں کا ایک زبردست سلسلہ شروع ہوجانے کا قوی امکان ہے۔ علم دین سے ناواقف لوگ اس آگ میں بلا جھجک کود پڑیں گے۔ پھر آگے یہ بھی ہوگا کہ کوئی شخص کسی معقول وجہ سے عقدثانی کرتا ہو جس کی اجازت اسلام میں موجود ہے، لیکن ملک کا سیول کوڈ اسے باطل ٹھہرائے گا اور اس نئی منکوحہ کو اپنے شوہر سے بے تعلقی اختیار کرنے کے لئے کہے گا۔ اب اس بچاری کے سامنے دو راستے رہ جاتے ہیں، یہ کہ وہ زندگی بھر تنہائی کی زندگی بسر کرے یا یوں ہی اپنے فطری تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے زناکاری کی مرتکب ہوتی رہے۔ اس طرح اس مظلوم عورت کی دنیا بھی گئی اور آخرت بھی تباہ ہوکر رہ جائے گی۔ (مولانا اصلاحی کی تحریر کا اقتباس ختم ہوا)
اگر یکساں سیول کوڈ کی شمشیر چلادی جائے جو پچھلے سات دہوں سے دفعہ 44 کی شکل میں لٹک رہی ہے اس کے نتیجہ میں مسلمانوں کا ذہنی و قلبی سکون یکسر ختم ہوجائے گا کیوں کہ مسلمانوں کا ضمیر ایک طرف بلائے گا اور قانونِ وقت (Commin Civil Code) کسی اور طرف ہانک رہا ہوگا۔ اس طرح ضمیر اور عمل کی کشاکش چلتے رہے گی اور ملک میں موجود ایک بڑی اقلیت بے چینی و بے قراری میں پڑجائے گی۔ یکساں سیول کوڈ کا زہر آلود نتیجہ جو ہمارے سامنے آئے گا وہ یہ کہ جن مسلمانوں کا تعلق دین سے کمزور ہے انھیں دین سے فرار کی ایک شہ مل جائے گی۔ کیوں کہ یہ بات حقیقت ہے کہ کسی مذہب کے شخصی قوانین کی جگہ کسی اور ضوابط کو اس پر مسلط کردیا جائے یا زندگی کی گاڑی کو زبردستی کسی اور راستے پر ڈال دیا جائے تو لازمی طور پر اپنے مذہب سے اس شخص کا تعلق اور لگاؤکم سے کم ہوتا چلا جائے گا۔ جن مسلمانوں کا دین سے مضبوط تعلق نہیں ہے یا پھر علم دین کی کمی یا علم سے ناواقفیت کی وجہ سے یکساں سیول کوڈ کی ہلاکت خیزی پر کوئی اظہار تردد بھی نہیں کریں گے، بلکہ انھیں یہ احساس بھی نہیں ہوگا کہ یہ یکساں سیول کوڈ کیا ہے اور اس کے ذریعہ دین اسلام میں کیا مداخلت ہورہی ہے اور اسلام کا کتنا نقصان ہورہا ہے وغیرہ۔
ایک دن ایسا بھی آئے گا کہ اُمت مسلمہ کا نام نہاد طبقہ (جو اپنے آپ کو ترقی پسند یا ماڈرن طبقہ میں شمار کرتا ہے) بڑی آسانی کے ساتھ ملک میں بڑی اکثریت رکھنے والی قوم کی تہذیب و ثقافت کے زیراثر آجائے گا۔ اس طرح ان ک
ا اسلام سے خفیف قسم کا تعلق بھی دیکھتے دیکھتے ختم ہوجائے گا۔ رہے اُمت مسلمہ کے وہ لوگ جو مذہب اسلام سے جن کا گہرا تعلق ہے وہ تو شروع شروع میں بڑا کرب و بے چینی محسوس کریں گے لیکن جیسے جیسے دن گزرتے چلے جائیں گے ان کی یہ کیفیت ڈوبتے سورج کی طرح اور گھلتے برف کے مثل ختم ہوتی چلی جائے گی اور ان میں کا ایک طبقہ صبر کی تلقین کرنے لگے گا اور دوسرے مسلمانوں سے کہے گا کہ ’’بھائی ہم اس غیر اسلامی ملک میں کر بھی کیا سکتے ہیں لہذا صبر کا دامن تھامے رکھو اسی میں عافیت ہے‘‘۔
مذکورہ بالا تمام تفصیلات پر اچھی طرح غور کرنے سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یکساں سیول کوڈ کے نافذ ہونے کے چند دن کے اندر مسلمانوں کا اپنا ملی تشخص ختم ہوجائے گا البتہ مسلمان صرف دو رکعت نماز پڑھنے والے اور وہ بھی عیدین کے موقع پر نظر آئیں گے اور باقی ایام میں ان کی شناخت مشکل سے ہی کی جاسکے گی۔ لہٰذا اب ہندوستانی مسلمانوں کو چاہئے کہ حالات کے رْخ کو اچھی طرح سمجھیں اور اپنے اندر اسلامی اتحاد پیدا کریں اور اپنی زندگیوں کو اسلامی راستہ پر ڈالنے کی بھرپور کوشش کریں اور اپنے اوپر شریعت محمدی اور طریقے اصحابؓ رسولؐ کو لازم کرلیں، کتاب و سنت کو اپنا شعار بنانے کے علاوہ اپنے شادی بیاہ و دیگر تقاریب کو بھی مسلمان بنائیں، اپنے آپسی جھگڑوں کو اسلام کی روشنی میں حل کریں۔ بالخصوص عائلی معاملات کو خدائے تعالیٰ کی رضا کی خاطر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے احکامات کی روشنی میں حل کرلیں۔ اس سلسلہ کی اہم بات یہ ہے کہ مسلمانوں میں اصلاح کا کام اور برادران وطن میں دعوت کا کام پورے اخلاص کے ساتھ جاری رہنا بھی انتہائی ضروری ہے۔ اگر ہم دعوت کا کام چھوڑ دیں گے تو اللہ ہمیں اپنی رحمت سے دور کردے گا اور ہماری زندگی روز بروز تنزل کی طرف چل پڑے گی۔ دوسری طرف یہ مسئلہ مسلمانوں کا تو ہے ہی لیکن دیگر مذہبی اکائیوں کا بھی ہے۔ لہٰذا یکساں سیول کوڈ کے مسئلہ میں مشتعل ہوئے بغیر مذہبی روایات کے حامل ہندو قبائل سے اس مسئلہ کی اہمیت پر تبادلہ خیال کریں اور ان کے اکابرین کے ساتھ علمی مباحث کی نشستیں کریں اور پورے ملک میں اگر یہ مہم پروقار و پرامن طور پر چلے گی تو یقینا ہمارے ملک کے دستور میں (رہنمایانہ خطوط کے طور پر) دفعہ 44 کو جو شامل رکھا گیا ہے اسے ہمیشہ کے لئے ختم کیا جاسکتا ہے۔
ہمارے ملک کی قدیم سیاسی پارٹی جو آزادی ہند میں اپنا بہت بڑا حصہ رکھتی ہے، اپنا احتساب کرتے ہوئے اور ملک کے مفاد اور دستوری حفاظت کے لئے ایک بڑا اقدام کرتے ہوئے بھارت جوڑو مہم کا آغاز کردی ہے۔ خدا کرے اس پارٹی میں اخلاص پیدا ہو اور ماضی کی غلطی کا اعادہ نہ کرتے ہوئے محنت کرے، تاکہ ہمارے ملک عزیز ہندوستان کی دن دونی رات چوگنی ترقی ہو اور ہمارا ملک سارے جہاں سے اچھا اور ساری دنیا میں اس کا نام روشن رہے۔
۞۞۞