تحریر: ناصرالدین مظاہری
کتابوں پر کتابیں چھپتی جارہی ہیں،جدید تحقیقات اورنئے موضوعات پر سیرحاصل تشریحات شائع ہورہی ہیں،علم تیزی کے ساتھ پھیل رہاہے ، نیٹ کی آمدسے بڑے بڑے کتب خانے مٹھی میں آچکے ہیں، چشم زدن میں آپ دارالعلوم مظاہرعلوم کے دارالافتاؤں سے رجوع کرسکتے ہیں،ان سب کے باجود ہماری غفلت اوربے حسی جوں کی توں ہے،ہم اپنے علماء کی خدمت میں بیٹھنا اپنی توہین سمجھتے ہیں،بزرگوں سے ملنا اور ان کی صحبتوں کو لازم پکڑنا کسرِشان تصورکرتے ہیں،اپنے آپ کو علامہ فہامہ سمجھنے کا خبط اور خوش فہمی ہمیں ترقی کی طرف نہیں تنزلی کی طرف لئے جارہی ہے اور ہم تیز رفتاری کے ساتھ کھائی اور خندق میں گرتے جارہے ہیں،ہم نے نیٹ کو ترقی کی معراج سمجھ رکھا ہے حالانکہ برکت اور اصلی ترقی بزرگوں کے نقوش قدم پرچلنے میں ہے۔
جوں جوں ہم بزرگوں سے دور ہوتے جارہے ہیں ہمارے عقیدے، ہمارے ایمان اورہماری تربیت متأثرہوتی جارہی ہے۔طلبہ فارغ ہوجاتے ہیں اور انھیں جوتے پہننے اور اتارنے کی سنتوں کابھی علم نہیں ہوتا، مسنددرس پرتشریف فرما بہت سے اساتذہ اپنے کردار وعمل سے اپنے آپ کوناتربیت اورکسی اللہ والے کی صحبت سے محرومی کااظہارکرتے دکھائی دیتے ہیں،خوان اور پکوان سے لے کر علیک سلیک تک ہرموڑ اور ہرمرحلہ میں ہم اپنی ناخواندگی کامظاہرہ کرتے ہیں، اس قسم کے مظاہرے ہوتے ہی رہیں گے کیونکہ ہم نے اپنے آپ کوتربیت یافتہ سمجھ رکھا ہے حالانکہ ہمیں کسی بھی بزرگ کی صحبت نصیب نہیں ہوئی۔ہم نے درسگاہوں کوخانقاہ سمجھنے کی غلطی کی ہے ،حالانکہ دونوں کے درمیان فصل اور فاصلہ ہے ،درسگاہیں زیور علم سے آراستہ کرتی ہیں تو خانقاہیں زیور تربیت سے پیراستہ کرتی ہیں۔ہم نے خانقاہوں کی مخالفت کی، ہم نے اپنے بڑوں اوربزرگوں سے غلط فہمی کی،ہم نے اُن کی شان میں زبان ِطعن دراز کی،ہم نے ہرموقع پر دوسروں پر انگلی اٹھائی نتیجہ یہ ہوا کہ ہم خود اپنے حصارمیں قید ہوکررہ گئے ،ہماری دنیا تنگ ہوتی چلی گئی، ہمارے رابطے مسدود اور محدود ہوتے چلے گئے۔ایسی صورت میں آپ سوچ سکتے ہیں کہ ہم اپنی ذات سے چراغِ ہدایت روشن کریں گے یااندھیروں میں اضافے کاسبب بنیں گے۔
علماء کی صحبت کو لازم پکڑنے کی ہدایت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دی ہے،علماء دین کے وہ چراغ ہیں جس سے روشنی کی کرنیں اور شعاعیں ظلمت اور تاریکیوں کودُور اور نفورکرتی ہیں۔
افسوس کہ آج مفتیان کرام کاکام صرف نکاح و طلاق کے مسائل بتانا اور بیان کرنارہ گیا ہے، تقویٰ وتدین ،حزم واحتیاط، ورع اور روحانی ترقیات کے تعلق سے ہم اُن سے کوئی بات نہیں پوچھتے ہیں اور اگرعلمائے کرام ہمیں ہماری کسی غلطی پرٹوک دیں توہم اُن ہی کے خلاف علَم بغاوت بلکہ علَمِ جہاد بلندکردیتے ہیں۔
اب یہی دیکھ لیجئے:عام طور پرعیدگاہوں میں مسجدوں کی چٹائیاں لے جائی جاتی ہیں،مسجدوں کے خطبے لے جائے جاتے ہیں،مسجدوں کے مائک بھی لے جاتے ہیں یعنی مسجدکاسارا سامان عیدگاہ پہنچادیا جاتا ہے، یہ غلطی ہم سے اس لئے ہوتی ہے کہ ہم نے کبھی کسی اہل علم سے معلوم کرنے کی کوشش ہی نہیں کی،ہم نے کوئی دینی بات پوچھنے میں اپنی توہین سمجھی اسی کا نتیجہ ہے کہ ہم باربار بلکہ ہرباراورہرسال گناہ گارہوتے رہتے ہیں اورہمیں احساس بھی نہیں ہوتا۔
دارالعلوم دیوبند کے دارالافتاء سے ایک صاحب نے سوال کیا:
’’ کیا مسجد کا سامان دوسری جگہ استعمال کر سکتے ہیں؟ مثلاً مسجد کی چٹائی عیدگاہ میں عیدکی نماز کیلئے یا کو ئی اپنے گھر میں استعمال کیلئے یا کو ئی اورمسجد کا سامان دوسری جگہ استعمال کر سکتا ہے ، جائز ہے یا نہیں؟‘‘
ارباب دارالافتاء نے جواب تحریرفرمایا:
’’مسجد کا سامان دوسری جگہ استعمال کرنا جائز نہیں ہے؛ لہذا صورت مسئولہ میں مسجد کی چٹائی یا کوئی اور سامان عیدگاہ میں لانایا اپنے گھر میں استعمال کے لیے لانا شرعا درست نہیں ہے۔ (فتاو ی ہندیہ)
اسی طرح کسی اور صاحب نے سوال کیا کہ مسجد میں ضرورت نہیں ہے لیکن اُس کے پاس روپے پیسے اورساز و سامان موجودہے توکیاکسی ایسی مسجدمیں یہ سامان لگاسکتے ہیں جہاں شدید ضرورت ہو؟تو سوال کا جواب دیا گیا:
’’جس مسجد کے لیے چندہ کیا گیا ہے اگر اس مسجد میں فی الحال ضرورت نہیں ہے تو آئندہ کی ضرورت کے لیے اس چندے کو محفوظ رکھا جائے، ایک مسجد کا چندہ دوسری مسجد میں لگانا غرضِ مُعطی کے خلاف ہے اس لیے یہ درست نہیں، اگر دوسری مسجد کو ضرورت ہے تو اس کے لیے الگ سے چندہ کرلیا جائے‘‘۔
ہمارے بہت سے سادہ لوح مسلمان مسجدسے قرآن کریم،سیپارے اوربعض توڈھیٹ قسم کے لوگ مسجد کا دوسرا سامان چٹائی ،لوٹے وغیرہ واپسی کی نیت سے ہی سہی اپنے گھرلے جاتے ہیں، اِس قسم کاہرعمل خلاف دین وشریعت ہے ہمیں اس قسم کے کاموں سے خود بچنا چاہئے اور دوسروں کوبھی بچانا چاہئے۔جوچیزنہ معلوم ہووہ اہل علم سے معلوم کرنا آپ کی ذمہ داری ہے۔