تحریر: خالد سیف اللہ صدیقی
آج ایک ، نہیں بلکہ دو متضاد واقعات نے مجھے بڑا متاثر کیا۔ میں ایک بندہ سیاہ کار سہی ؛ لیکن بزرگوں سے تعلق ، ان سے نسبت اور ان کے علوم و معارف سے لگاؤ کی بنا پر مجھے اپنے خاتمہ بالخیر کی ہمیشہ فکر رہتی ہے۔ ہمیشہ میری زبان اس کے لیے خدا سے فریاد کناں ہوتی ہے۔
پاکستان کے الحاد پر کام کرنے والے ایک واٹس ایپ گروپ میں دو پیوستہ تصویروں کے ساتھ ایک ہم رشتہ تحریر آئی ، جس میں ان دو تصویروں میں سے ایک کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ شخص وہ ہے جو انتہائی درجے کا متعصب عیسائی تھا۔ مسلمانوں کے ساتھ تضحیک اور ان پر طنز موصوف کا وطیرہ تھا۔ کعبة اللہ کے بارے میں ازراہ طنز و تمسخر یہ جملہ کستا تھا کہ : "مسلمان صحرا میں پڑے ایک سیاہ صندوق کی عبادت کرتے ہیں”۔
دوسری تصویر کے بارے میں لکھا تھا کہ یہ شخص کمال درجے کا اسلام کا داعی اور مبلغ تھا۔ اس کی علمی و فکری علو و عظمت و شان کے سبب اسے "ابن تیمیہ ثانی” سے پکارا جاتا تھا۔ اس کی ایک کتاب "الصراع بین الاسلام و الوطنیة” مشہور زمانہ ہے۔ اہل علم میں اس کتاب کو بے حد مقبولیت حاصل ہوئی۔ اس کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وقت کے امام حرم مکی نے اس کتاب کے بارے میں ایک پورا قصیدہ پڑھا تھا۔ یہاں تک کہ صلاح منجد کے بہ قول بعض علما نے کہا کہ : صاحب کتاب نے یہ کتاب لکھ کر گویا جنت کی مہر ادا کر دی۔
پہلا شخص امریکہ سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا نام جوزف اسٹس ہے۔ خدا کا کرشمہ یا اس کا فضل و کرم کہ اسی اثنا میں جوزف اپنے اہل و عیال سمیت ایک مصری داعی کے ہاتھوں اسلام قبول کر لیتا ہے۔ جوزف سے "یوسف” بن جاتا ہے ، اور پھر اس کے ہاتھوں خدا سیکڑوں بندوں کو مشرف بہ اسلام کرتا ہے۔
دوسرا شخص بلاد حرمین سے تعلق رکھتا ہے۔ اس کا نام عبد اللہ القمیصی ہے۔ بعد کو چل کر اس کے ساتھ یہ حادثہ ہوا کہ بیروت کی ایک عیسائی لڑکی سے اسے عشق ہوگیا۔ اس کے بعد اس نے گم راہ اور منحرف افکار و نظریات کا دفاع شروع کر دیا۔ اور پھر کتاب لکھی : "یکذبون لکی یروا الالہ جمیلا”(وہ جھوٹ اس لیے بولتے ہیں کہ معبود کو خوب صورت دیکھیں) اسی طرح "ھذہ ھی الاغلال” (یہی وہ زنجیریں ہیں) نامی ایک کتاب لکھی ، جس میں نماز روزے کے علاوہ دیگر اسلامی رسوم عبودیت کو گلے کے طوق سے تشبیہ دی۔ پھر اس نے اپنے "ملحد” اور "منکر خدا” ہونے کا اعلان کر دیا۔ ١٩٩٦ء کو اس کا انتقال ہوا۔
(موصوف القمیصی پر ویب سائب پر موجود معلومات سے بھی اس کا ملحد و منکر ہونا معلوم ہوتا ہے۔ صدیقی)
دونوں واقعے کو دیکھیے ، اور خدا کی شان بے نیازی کا استحضار کیجیے! ایک بندہ جو حد درجہ اسلام و مسلمین کا معاند و متعصب تھا ، خدا اسے دولت ایمان سے سرفراز فرما کر اپنے دین و ہدایت کی تبلیغ و اشاعت کے لیے قبول فرما لیتا ہے۔
اور ایک بندہ جو اسلام کا داعی و مبلغ تھا ، اور جس نے ایسی کتاب لکھ دی تھی کہ زمانہ اس کا مدح خواں ہوگیا تھا ؛ لیکن جب وہ دنیا سے رخصت ہوا تو ملحد و منکر خدا ہو کر!
اللہ اکبر! میرے خدا! تیری کیا شان صمدیت و بے نیازی ہے!
کسی کتاب میں ، میں نے کہیں پڑھا یا کسی سے سنا تھا کہ ایک اللہ والے سے کسی شخص نے پوچھا کہ بتا کتا اچھا ہے یا تو ؟ اس عارف کا جواب بھی دیکھیے کتنا عارفانہ تھا۔ فرمایا : اگر میں دنیا سے ایمان کی سلامتی کے ساتھ چلا گیا ، تو میں اس کتے سے بہتر ہوں ، اور اگر خدا نہ خواستہ میں اپنے ایمان کے ساتھ دنیا سے نہ جا سکا ، تو یہ کتا مجھ سے بہتر ہے۔
غالبا حضرت تھانوی کے ملفوظات میں ، میں نے کسی بزرگ کا قول پڑھا تھا۔ وہ فرماتے تھے کہ اپنی عبادات و ریاضات پر دنیا میں خوش ہونے کی کیا بات ؟ خوش تو تب ہوا جا سکتا ہے جب کہ ایک بندہ مومن اپنے ایمان کی سلامتی کے ساتھ دنیا سے رخصت ہو جائے ، اس سے پہلے خوش ہونا کوئی معنی نہیں رکھتا۔
ان صاحب ملفوظ کا ملفوظ بھی بڑی حکمت و دانائی پر مبنی ہے۔
اللہ تعالے ہمیں اپنے دین و ایمان کی قدر کرنے کی توفیق عطا فرمائے! اور اے خدا! ہماری موت نہ آئے ؛ مگر اس حال میں کہ ہم سچے مومن ہوں۔(آمین یا رب العالمین)