ازقلم: عین الحق امینی قاسمی
معہد عائشہ الصدیقہ بیگوسرائے
قومی ،ملی ،تعلیمی، اصلاحی اور دعوتی افکار واقدام کے حوالے سے امیر شریعت سابع مفکر اسلام حضرت مولانا سید محمد ولی صاحب رحمانی رحمہ اللہ غیر معمولی امتیازات وخصوصیات کے حامل تھے، کہہ لیجئے کہ ان کی زندگی کے ہر پہلو میں سیکھ کے سامان تھے، بہ ظاہر جہاں پر وہ سخت دکھتے بھی تھے تو اس میں بھی ملت کا مفاد ہی پیش نظر رہاکرتا تھا ،ان میں پالیسی ساز ی بھی تھی اور پالیسی کو زمین پر اتارنے کی صلاحیت بھی تھی ،ان میں وہ گن تھا کہ دوسرے لوگ خوبیوں کے ساتھ استعمال ہوجاتے تھے اور جہاں مشکلات کھڑی ہوتیں ،وہیں سے متبادل راہ ڈھونڈلیتے تھے ،کام کے دھنی انسان تھے ،ان کے کام وکردار اور افکار وخیالات کی جہتوں نے بہت سوں کو متآثر کیا ۔
کہا جاتا ہے کہ کام خودکرنے سے زیادہ ،کام کروانا مشکل امر ہے ،انہوں نے مولانا آزاد کو گرچہ "کئی دماغوں کا ایک انسان ” لکھا ہے ،مگر حالات ،مواقع ،مشکلات اور کام کی نوعیتوں کو دیکھیں توخود مولانا رحمانی اس جملے کے حقدار ہیں ،یا یوں کہیں کہ ان کے دور میں اگر مولانا آزادکئی دماغوں کے انسان تھے تو ہمارے زمانے میں حضرت رحمانی بلاشبہ بیک وقت کئی دماغوں کو استعمال کرنے کا گن رکھتے تھے اور اس خوبی میں بالیقین وہ تنہا تھے ۔
ان کے والد امیر شریعت رابع حضرت مولانا سید منت اللہ رحمانی رحمہ اللّٰہ نے حضرت قطب عالم مولانا سید محمد علی مونگیر ی اور بعد کے دنوں میں عارف باللہ حضرت مولانا محمدعارف صاحب ہر سنگھ پوری اور حضرت مولانا ابوالمحاسن سید محمد سجاد رحمھم اللہ جیسے اساطین علم وفن سے براہ راست استفادہ کیا تھا ،انہوں نے بلا واسطہ ذکر کردہ جلیل القدر رہنماؤں کے لیل ونہار کو دیکھا اور برتا تھا ۔اس لئے بھی امیر شریعت سابع مولانا سید محمد ولی رحمانی ارواح اربع کی خوبیوں کے تنہا وارث ٹھہرے۔مولانا رحمانی یوں تواپنے والد سے متآثر تھے اور تقریبا 26/ برس تک کاؤنسل سمیت تقریر ،تدریس اور تحریر کی تربیت پائی تھی ،مگر اپنےکام کے زاویوں کو فکر سجاد سے ایسا مربوط کیا کہ وہ سجاد ثانی کی” صف آخر” تک جا پہنچے…..!
عمر کے آخری پڑاؤ تک وہ سماج سیوی بن کر صبح وشام بیتاتے رہے ،زندگی بھر بحیثیت قائد ورہنما ملت کی خدمت کرتے رہے ،انہوں نے ایک سے زائد سمتوں میں کام کیا اور سب سے الگ ،کئی زاویوں سے انہوں نے کام وذمہ داریوں کی طرح ڈال دی ،جس نمونے کو سامنے رکھ کر بہت سے افراد وادارے کام میں لگے ہوئے ہیں ۔ کئی ایسے امور تھے جن کو انہوں نے اپنی چاہت وارادے کے اعتبار سے تکمیل کےمر حملے تک پہنچا یا اور الحمد للّہ خوبیوں کے ساتھ پہنچایا ۔اس احسان نوازی پر ملت اسلامیہ تاحیات احسان مند رہے گی۔مگر کیا کہئے کہ
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے۔
بہت نکلے مر ے ا ر ما ن پھر بھی کم نکلے
کے مصداق مولانا محمد ولی صاحب رحمانی کے بہت سے خواب ادھورے رہ گئے ،تمام طرح سے تانا بانا بننے کے باوجود جد وجہد کے فائنلی نتیجے کو وہ اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ سکے اور کیا معلوم کہ وہ اتنی جلدی داعئ اجل کو لبیک کہہ جائیں گے ۔انہیں موت کا یقین ضرور تھا ،بڑھتی عمر کا احساس بھی تھا اور کئی بار وہ موت کے منھ سےواپس بھی آچکے تھے، لیکن کام کا ہجوم اور ملت کے تقاضے اتنے تھے کہ وہ کام کو پھیلاتے چلے گئے ،رات ودن کا خاکہ اور اس میں رنگ بھری کی ایسی بے چینی تھی کہ اپنے مستقر پر لوٹے بغیربالآخر” راہ عمل "میں ہی اپنی جان،جان آفریں کو سپر د کر گئے ۔
"آسماں تیری لحد پر شبنم افشانی کرے”
ان کی سوچ اور کام کی جہت جدا تھی ،ایسے ایسے کام انہوں نے اوڑھ رکھے تھے جس کے لئے” انجمن "درکار تھی ،مالی طور پرخزانوں کی ضرورت تھی ،جانی قوت واقتدار کی ہر آن ضرورت تھی مگر:
"راہ رو آتے گئے اورکارواں بنتا گیا "
ہر سمت سے افراد کو استعمال کرنا اور ان سےملت کے تقاضوں کی تکمیل کے لئے وقت مانگنا ،انہیں خوب آتا تھا ،مانوجیسے وہ اپنے ذاتی کاز کے لئے افراد کو آمادہ کررہے ہوں ۔مگر اس کے باوجود بہت سے عزائم ومنصوبے خواب وخیال کی شکل میں ادھورے رہ گئے ،جنہیں جلد یا بدیر تکمیل کی راہ سے گذارنا اب ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اگر یہ کام خوبیوں کے ساتھ انجام پاتے رہے تو یہ مولانا مرحوم کے تئیں یقیناًہماری طرف سے اصل خراج عقیدت ہوگا ،اس لئے کہ وہ کام کو پسند کرتے تھےاور کام کے آدمی کو۔۔۔!
میرے ساتھ ساتھ چلےوہی ،جو خار راہ کو چوم لے
جسے کلفتوں سے گریز ہو، وہ میرا شریک سفر نہ ہو
ذیل میں ان عظیم منصوبوں اور ادھورے خوابوں پر روشنی ڈالی جاتی ہے جنہیں حضرت رحمہ اللہ نے اولاد سے عزیز تر جا ن کر ملت کے لئےنتیجہ خیز بنانےکی جتن کی تھی ،مگر مرضی مولی از ہمہ اولی !!!
(1)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہندستانی مسلمانوں میں علمی،اقتصادی اور معاشی کمی کو دور کرنے کے تعلق سے وہ شروع دن سے فکر مند رہے ،وہ چل پھر کرجلسوں میں بھی اور تنظیم واداروں کوبھی متوجہ کر کے مسلمانوں کے اوپر سے لگے داغ (مسلمانوں کی حالت دلتوں سے بھی بد تر ہے )کو وہ دھونے کے لئے دم آخر تک کوشاں رہے ،وہ جانتے تھے کہ ہندی مسلمانوں کے اس مرض کا علاج کیا ہے یا اس داغ کو کس کیمیکل سے یقینی طور سے دوھویاجاسکتا ہے، اس لئے انہوں نے مدرسوں کے قیام کی طرف توجہ دینے کی بجائے عصری تعلیمی اداروں کے قیام کی طرف انشراح قلب و ذہن کے ساتھ لگ گئے کہ ماضی میں اگر مدارس کا جال پھیلانا اس وقت کا شدید تقاضہ تھا تو اس زمانے میں دینی ماحول میں عصری تعلیم کے اداروں کا جال پھیلانا نہ صرف علمی ،اقتصادی اور معاشی ضرورتوں کی تکمیل ہوگی،بلکہ نئی نسل کو روزگار کے مواقع فراہم کر انہیں ارتداد اور احساس کمتری سے بچانے کا فرض بھی ادا ہوگا ۔اس اہم کام کے لئے ہی انہوں نے رحمانی تھرٹی کی بنیاد رکھی تھی ،مگر بعد کے دنوں میں تجربوں کی راہ سے یہ جہت بھی سامنے آئی کہ ہمارے بچے اعلی عصری تعلیم میں پیش قدمی کیوں نہیں کرتے ؟ اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ ان کی ابتدائی تعلیم ٹھوس نہیں ہوتی یا کم ازکم اعلی عصری تعلیم کے لئے جس معیار کی بنیادی عصری تعلیم کی ضرورت ہے اس پر ہمارے بچے کھرا نہیں اترتے ۔مولانا رحمانی نےاپنے کئی مضامین میں اپنے اس کرب کا اظہار کرتے ہوئے ملت کو اس کمی کا نہ صرف احساس دلایا ،بلکہ نوودے ودیالیہ جیسے سرکاری اداروں میں مسلم بچوں کو ڈالنے کی ترکیب بھی بتائی، انہوں نے لکھا کہ مقابلہ جاتی مرحلوں کو سر کرنے کے لئے ابتدائی عصری تعلیم کی پختگی از بس ضروری ہے ،ملت کے افراد کو چاہئے کہ وہ انگلش میڈیم کوچنگ سینٹروں کے قیام کے ذریعے ابتدائی کلاسیز کے بچوں کو معیاری تعلیم دیں تاکہ یہی بچے کل ملک بھر کےبیچ ہونے والے کمپٹیشن میں کوالیفائی کر خاندان وقوم کا نام روشن کرسکیں ۔
اسی پاک جذبے سے آواز لگانے کے ساتھ ہی انہوں نے عملا از خود بھی بہار اڑیسہ وجھارکھنڈ کے ہر ضلع کے اندر کم ازکم ایک عدد امارت پبلک اسکول کے قیام کا اعلان کیا تھا، بلکہ ہنگامی سطح پر چند جگہوں پراسکول کے لئے تعمیراتی کام بھی شروع کردیا گیا اور بہت سے اضلاع میں زمین کے انتخاب کا عمل بھی جاری تھا ۔دوسری طرف رحمانی فاؤنڈیشن کے زیر اثرکشن گنج کے پوٹھیا بلاک میں کئی ایکڑ زمین حاصل کی تاکہ +2تک بچوں کو اپنے ماحول میں رکھ کر” لاکھوں میں انتخاب” کے قابل بناسکیں .
ضرورت ہے کہ مولانا رحمانی کے جانشین وعقیدت مند اس منصوبے کو تکمیل کی راہ سےگذارنے کی پوری کوشش کریں اور ملت کے اہل ثروت بہی خواہ جنہیں علم اور ملت کی نسلوں سے پیار ہے وہ حضرت صاحب کی تعلیمی تحریک میں تیل ڈالنے کے لئے آگے آئیں اور حضرت مرحوم کی اس علمی تحریک کو گھر گھر پہنچانے کا عزم مصمم بھی کریں اور وقت ومال کے ساتھ ہاتھ بھی بٹائیں۔
جاری۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔