مہاراشٹر میں ایک اور سیاسی بھونچال !

ازقلم: سمیع اللہ خان

اب بھاجپا نے اجیت پوار کو توڑ لیا، اجیت پوار نے دلیپ ولسے پاٹل اور چھگن بھجبل جیسے سینئر لیڈروں کے ہمراہ بھاجپا۔شندے سرکار میں شمولیت اختیار کر لی ہے، اجیت پوار کو ڈپٹی سی۔ایم بنایا گیا ہے، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے باقی بچے کھچے افراد شرد پوار کی طرف دیکھ رہے ہیں، خطہءکوکن کے مشہور لیڈر سنیل تتٹکرے کی بیٹی آدیتی تٹکرے بھی بھاجپا۔شندے اتحاد میں شامل ہوگئی ہے، دیگر خرابیوں کےساتھ ساتھ بھاجپا+شندے اتحاد میں شمولیت کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ مہاراشٹر میں مسلمانوں کےخلاف جاری ہندوتوا نفرت کی سیاست میں شامل ہونا اور اس نفرتی سیاست کو مضبوط کرنا ۔
شرد پوار کو مہاراشٹر کا آہنی لیڈر سمجھا جاتا ہے، انہوں نے اپنے بھتیجے کی اس غداری پر پہلا ردعمل دیتے ہوئے کہا ہے کہ وہ مضبوطی سے کھڑے ہیں اور عوامی حمایت انہی کو حاصل ہے،
جوڑ توڑ اور ایم۔ایل۔ایز کی خریدوفروخت والی یہ سیاست بھارتی جمہوریت کی اَن۔کہی داستان ہے۔

بھاجپا نے پہلے مہاراشٹر کے وزیراعلٰی کی پارٹی کو توڑا، سرکار کو مستعفی ہونے پر مجبور کیا شیوسینا ادھو ٹھاکرے کے آدھے سے زیادہ ممبران اسمبلی کو توڑ کر اپنے ساتھ لے گئے اب این۔سی۔پی کے ساتھ بھی بعینہ وہی کھیل کھیلا گیا ہے، شرد پوار ان کی بیٹی اور ان کے چار۔پانچ انتہائی قریبی وفاداروں کے علاوہ ساری پارٹی اور ممبران اسمبلی کو خالی کرکے لے گئے ہیں۔
بھاجپا کو یقین تھا کہ وہ صرف ایکناتھ شِندے کو ساتھ لےکر آئندہ مہاراشٹر کو جیت نہیں سکتی ہے اس لیے اس نے بالآخر اجیت پوار سمیت این۔سی۔پی کو توڑ لیا ہے، اب یہ سوال واقعی قائم ہوگیا ہے کہ کیا اب مہاوِکاس۔آگھاڑی یعنی کہ بھاجپا کی دستبرد کےبعد باقی بچی کھچی شیوسینا اور این سی پی نیز کانگریس کیا اب اس پوزیشن میں ہے کہ وہ بھاجپا + شندے + اجیت پوار کو شکست دے سکے؟ اور مہاراشٹر میں نفرتی سیاست کو جیتنے سے روک سکے؟
نیز شرد پوار اس وار کا جواب کیسے دیں یہ دیکھنا بھی دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا۔
samiullahkhanofficial97@gmail.com

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے