مومن کو حالات سے مایوس اور کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہیے

خطاب جمعہ براے 21 جولائی

طول غم حیات سے نہ گھبرا اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے،جس کی سحر نہ ہو

محمد قمر الزماں ندوی
مدرسہ نور الاسلام کنڈہ پرتاپگڑھ

حق اور باطل خیر اور شر کفر اور ایمان کے درمیان معرکہ آرائی ہمیشہ سے رہی ہے، چراغ مصطفوی سے شرار بولہبی کی ستیزہ کاری کوئی نئی اور انوکھی بات نہیں ہے، اس کا سلسلہ ہمیشہ سے جاری ہے ، باطل اپنے لاؤ لشکر کے ساتھ اسلام کے خلاف ہمیشہ سرگرم عمل رہا، ابلیس اور اسکے چیلے چپڑے ہمیشہ کوشش میں رہے کہ اسلام مٹ جائے ،مسلمان ختم ہو جائیں اور گمراہی میں مبتلا ہوجائیں یہ باطل کے ہمنوا بن جائیں یا یہ نام نہاد مسلمان بن کر رہیں۔ خطرات کب نہیں آئے، حالات کب نہیں آئے ، امتحانات کب نہیں ہوئے، ہماری آزمائش کب نہیں ہوئی؟ یہ امتحانات اور آزمائش تو آتے ہی اس لئے کہ ہم اپنا محاسبہ کریں،اپنا جائزہ لیں، اپنے اندر انقلاب اور تبدیلی لائیں، اپنے رب کو راضی کریں،خدا کی مرضی پر چلیں نفس کی پیروی کو ترک کردیں اور ایک مومن کی ذمہ داری اور فرض نبھانے والے بن جائیں، ان حالات اور آزمائش کے نتیجے میں اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندے کے مقام کو بڑھانا چاہتے ہیں انہیں ابتلا اور آزمائش میں گرفتار کرکے ان پر حالات لاکر سرخ رو کرنا چاہتے ہیں۔ اس لئے مومن بندے کو حالات کا شاکی نہیں ہونا چاہیے، مشکلات سے گھبرانا نہیں چاہئے ،مایوس اور کبیدہ خاطر نہیں ہونا چاہئے ۔بلکہ ہر حال میں اور ہر وقت

قضاء و قدر کے فیصلے پر راضی رہتے ہوئے مشکلات سے نکلنے کی تدبیر اور کوشش کرتے رہنا چاہیے۔
یہ سچ ہے کہ اس وقت پوری دنیا میں مسلمان اور خصوصا ہندوستانی مسلمان، جن سخت اور مشکل حالات سے دو چار ہیں،وہ سب پر عیاں اور بیاں ہے، کسی سے مخفی اور پوشیدہ نہیں ہے ۔ اس طرح کے حالات ، بلکہ اس سے بھی سخت حالات کا ماضی میں مسلمانوں کو سامنا کرنا پڑا ہے۔ لیکن جب بھی اس طرح کے حالات کا انہیں سامنا کرنا پڑا اور محسوس ہوا کہ اب اسلام کا چراغ ںجھ جائے گا، مسلمان مٹ جائیں گے اسلامی شعار اور عائلی نظام ختم ہو جائیں گے ۔ ایسے مشکل اور کٹھن موقع پر مسلمانوں نے اپنے عزم و حوصلے، صبر و ضبط اور جرات، و استقلال اور غلطیوں کی اصلاح سے بہت جلد حالات کا رخ موڑ دیا، اور اس قرآنی وعدہ کو ثابت کردیا کہ جو چراغ ہمیشہ جلنے اور دمکنے کے لیے آیا ہے ،اسے کوئی بجھا نہیں سکتا، موجودہ حالات کے بارے میں خاص طور پر یکساں سول کوڈ نفاذ کی کوشش کے بعد موجودہ حالات سے، ایک بڑی تعداد مایوسی اور ناامیدی کی شکار ہے، اور افسوس یہ ہے کہ بہت سے رہبران قوم اور قائدین ملت بھی مایوسی کی بات کرنے لگے ہیں ۔
جب کہ اس طرح کے حالات اور واقعات سے ناامید اور مایوس نہیں ہونا چاہیے، ہاں اس پہلو پر غور کرنا چاہیے کہ یہ مصائب اور حالات آئے کیوں❓ سچ یہ ہے کہ یہ حالات اور مصائب ہمارے اپنے لائے ہوئے ہیں اور یہ حالات اس وقت تک نہیں بدل سکتے، جب تک ہم اپنی خامیوں ،کمیوں اور کوتاہیوں کو دور نہ کریں، جو ان حالات کی وجہ بنی ہے۔ آج سب سے زیادہ انتشار ہماری صفوں میں۔ عدالت میں سب سے زیادہ فیصد اور تناسب کے اعتبار مقدمات ہمارے، سب سے زیادہ خاندانی جھگڑے اور تنازعات، مسلم فیملی میں۔ مدرسہ اور مسجد کے مقدمات بھی سرکاری عدالتوں میں، جبکہ ہمارا دعویٰ ہے کہ مسلم معاشرہ کے لیے اس کی حیثیت شہہ رگ کی ہے اور یہ رشد و ہدایت کے مراکز ہیں اور یقینا ہیں۔ لیکن جو مرکز اور جگہ مسلمانوں کے لیے سب سے پاکیزہ اور محترم جگہ ہو، وہیں اختلاف و انتشار ہو اور وہاں کے مقدمات سرکاری عدالتوں میں ہو یہ بہت افسوس اور شرمندگی کی بات ہے۔
ضرورت ہے کہ ہم اپنی کمیوں اور خامیوں کو خود تلاش کریں، اپنا محاسبہ کریں اپنی حقیقی مشکلات و مسائل کو سمجھیں، کہ احساس زیاں بھی اگر ہمارے اندر نہ ہو تو پھر کر ہی کیا سکتے ہیں اور کیا انقلاب لا سکتے ہیں؟ ۔ ہم اپنی غلطیوں کو پہنچانیں، ان کو نشان زد کرکے ان کی اصلاح کریں۔ ہم محاسبہ کریں کہ ہم نے خود اپنے تئیں، اپنی ملت کے تئیں اور پوری ملت اور انسانیت کے تئیں وہ کون سی غلطیاں کی ہیں ؟ جن کا خمیازہ آج ہم کو ہر جگہ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ ہم بہترین امت ہیں ,لیکن کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ ہم نے اپنی ذمہ داریوں کے ادا کرنے میں کوتاہی کی ہے، جس عقیدہ اور پیغام کی تبلیغ و ترسیل کے لیے ہمیں بھیجا گیا ہے، اسے ہم نے اپنے تک محدود کر لیا ہے۔ ہم نے اپنی ذمہ داری اور فرض شناسی و منصبی کیساتھ کوتاہی کی، ساتھ ہی ہم نے دعوت و تبلیغ اور انسانیت کے کاموں میں سرگرمی نہیں دکھائی جو تمام نبیوں کا خاص مشن رہا، اب وقت آگیا ہے کہ ہم اپنی کمیوں اور غلطیوں کو محسوس کریں اور پوری جانفشانی کے ساتھ حالات کے مقابلے کے لیے ڈٹ جائیں۔ اس کے لیے ہمیں اولین فرصت میں ان چیزوں کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پہلی چیز یہ کہ ہم اپنے اندر سے ناامیدی اور مایوسی کو دور کردیں، اور یہ یقین رکھیں کہ اگر ہم ایمان کے تقاضوں اور شرائط پر کھرے اتر جائیں گے،تو ہمیں سربلند رہیں گے۔ ہمیں کوئی مٹا نہیں سکتا ہمیں کوئی ختم نہیں کرسکتا۔ ولا تھنوا ولا تحزنوا و انتم الاعلون ان کنتم مؤمنین ۔ خدائی وعدہ اور ربانی اعلان ہے ۔۔
دوسری چیز یہ ہے کہ متحدہ ایشوز پر سارے مسلمان متحد و متفق ہوجائیں اور سیسہ پلائی دیوار بن جائیں۔ ایک آواز ایک طاقت بن جائیں۔ ابھی ملک میں یکساں سول کوڈ کے نفاذ کی جو بات چل رہی ہے اور اس کی وجہ سے جو بے چینی ہے جو حالات آئے ہیں، اس کا مقابلہ ہم سب مل کر کریں۔ اس میٹر پر سب متحد ہوجائیں۔
تیسری چیز ظلم ہنسا کے خلاف چاہیے وہ ظلم کسی کمیونٹی پر ہو ہم سب ایک آواز ہو کر،اس کے خلاف کھڑے ہوجائیں۔
چوتھی چیز ہمیں اس بات کی پوری کوشش کرنی چاہیے کہ مسلمانوں میں جو انتشار و اختلاف ہے، وہ ختم ہو، اگر ہم متحد ہوں گے تو ہمارا اپنا وجود اپنے آپ میں ایک قوت کی شکل میں ہوگا، جس کو ختم کرنا دشمن کے لئے ناممکن ہوگاَ – اگر منتشر رہیں گے تو سرے سے ہمارا وجود ہی بے معنی ہوگا۔
پانچویں بات ہمارے پاس متحدہ نصب العین اور پلانگ ہو، ہم اچانک کسی معاملہ اور اشوز کے حل کے لیے کھڑے ہوتے ہیں پہلے سے غور و فکر نہیں کرتے۔ الیکشن ہوجاتا ہے، باطل و فاشسٹ طاقت جیت جاتی ہے، تب ہم لائحہ عمل اور تجویز پیش کرتے ہیں۔ پہلے سے ہماری کوئی تیاری نہیں ہوتی۔
چھٹی بات ہم آپس میں ایک دوسرے کی کیھچا تانی اور ایک دوسرے پر الزام تراشی سے بچیں، کسی پر لعن طعن نہ کریں کہ ماضی میں اس نے یہ کیا اور وہ کیا۔ ہم آپس میں متحد ہوکر سیہ پلائی دیوار بن جائیں۔
ساتویں بات ہم جذباتیت کے مظاہرہ سے پرہیز کریں، ہمیں سنجیدگی کے ساتھ کسی بھی معاملہ پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ اور یہ سمجھنا ہے کہ اچھے برے حالات زندگی میں آتے رہتے ہیں۔ پہلے بھی آتے رہے ہیں اور آگے بھی آتے رہیں گے۔ سخت حالات میں بھی ہمیں صبر و ضبط اور جرات و ہمت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔
آٹھویں بات یہ ہے کہ تعلیم و تربیت کے میدان میں ہم کو دوسری قوموں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں رہنا ہے، اس کے لئے مضبوط اور ٹھوس قدم اٹھانا ہے، کیونکہ موجودہ جنگ جیتنے کے لیے سب موثر ہتھیار تعلیم ہے۔ ہم مدرسے کے نصاب کو حالات کے مطابق اپٹوڈیٹ کریں، جدید وسائل اور طرز تعلیم سے بھر پور استفادہ کریں، بچوں کو ملک اور دنیا کے جغرافیہ سے واقف کرائیں، جی کے یعنی جنرل نالج طلبہ کا بہت مضبوط ہو، آج میڈیا کے لوگ ہمارے ادارے میں آنے لگے تو ہم اچانک ان کو یہ چیزیں یاد کرانے لگے، نہیں پہلے سے اس کی جانب توجہ دینے کی ضرورت تھی، ہفتہ میں ایک دن انگریزی کے اساتذہ ان کو ملکی سیاست، عدلیہ اور ملکی جغرافیہ سے واقف کرائیں۔ ان کے اندر حوصلہ اور ملکہ پیدا کریں کہ وہ میڈیا کے سوالات کا اچھی طرح جواب دے سکیں۔ مدرسہ میں ڈبیٹ اور ماس میڈیا کا کورس تیار کیا جائے۔ اس وقت اس کی بہت ضرورت ہے۔ علم رہتے ہوئے ہم میڈیا کے سامنے جواب دینے سے گھبراتے ہیں،۔
نویں بات ہم کو اس ملک میں رہ کر یہ سمجھنا ہوگا کہ ہم یہاں ایک داعی کی حیثیت سے ہیں، ہمیں دعوت کے کاموں میں پوری دلچسپی کے ساتھ لگنا ہوگا اور سب تک دوست ہو یا دشمن اللہ کا پیغام پہنچا نا ہوگا۔ ہمیں کبھی اپنی اس حیثیت کو بھلانا اور نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ یاد رکھیں کہ ہماری جان عزت، مال اور آبرو کی حفاظت دعوت دین کو پہنچانے میں ہے۔ والله یعصمک من الناس مشروط ہے دعوت پر، تبلیغ پر، دین کی اشاعت پر اور لوگوں کو سچائی اور حق کی طرف بلانے پر۔
آخری بات جو مسک الختام ہے وہ یہ کہ قرآنی تعلیم اور ہدایت یہ ہے کہ نازک صورتحال اور مشکل گھڑی میں میں ہمیشہ اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہیے، توبہ و انابت کرنا چاہیے، ہم ظاہری اور مادی تدبیر تو کرتے ہیں، لیکن اللہ کی طرف صحیح طور پر رجوع نہیں ہوتے۔ ہم کو یاد رکھنا ہے کہ اللہ کے حکم اور اس کی مرضی کے بغیر ہم کوئی کام انجام نہیں دے سکتے۔ ہم کو ایسے موقع پر اللہ کی طرف رجوع ہونا گا اس کے بغیر یہ حالات ختم نہیں ہوں گے۔ اور یہ یقین رکھئیے کہ یہ حالات بہت جلد بدل جائیں گے، رات کتنی اندھیری ہو صبح کا آنا یقینی ہے۔ قرآن کا پیغام اور تعلیم ہے۔ ان مع العسر یسرا، فان مع العسر یسرا اور حدیث میں آتا ہے، ان مع العسر یسران۔۔ بس قرآن و حدیث پر ہمارا یقین اور ایمان مضبوط ہوجائے۔۔

طول غم حیات سے نہ گھبرا اے جگر
ایسی بھی کوئی شام ہے جس کی سحر نہ ہو

ناشر / مولانا علاؤ الدین ایجوکیشنل سوسائٹی جھارکھنڈ 6393915491

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے