سوشل میڈیا پر اپنی رائے ظاہر کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد ہے، مختلف ناموں سے گروپ موجود ہیں جن کو کسی خاص مقصد کے لیے بنایا گیا ہے، بناتے وقت پہلے سے ایڈمن کے پاس جتنے نمبر ات موجود ہیں، سب کو گروپ میں شامل کرکے دم لیتے ہیں، جن کو شامل کیا جا رہا ہے ان سے اجازت لینے کی ضرورت بھی محسوس نہیں ہوتی، شاید باید اِکا دُکا اور خال خال کوئی پوچھ لیتا ہے، ورنہ بیش تر ایڈمن حضرات اس جرم کے مرتکب ہوتے ہیں، اخلاقی تقاضہ تو یہ ہے کہ جب آپ کسی کا نمبر دوسرے کو شِیر کرتے ہیں تو اس کی بھی اجازت لینی چاہیے، کیوں کہ جس کا نمبر آپ دے رہے ہیں وہ آپ سے مربوط رہنے پر تو راضی ہے، وہ دوسرے سے بھی تعلق رکھنا چاہتا ہے یا نہیں، یہ اس کی مرضی پر منحصر ہے، اور مرضی جاننے کے لیے اجازت ضروری ہے ۔
آپ نے بغیر اجازت اسے اپنے گروپ میں شامل کر لیا تو آپ نے اس کا نمبر گروپ کے ہر رکن تک ٹرانسفر کر دیا، یہ غیر اخلاقی حرکت ہے، اب یہ گروپ کے لوگ اناپ ، شناپ، اول ، جلول پیغام پوسٹ کرتے رہتے ہیں، ان میں رطب ویابس بھی ہوتا ہے، غلط خبریں بھی ہوتی ہیں، لعن طعن بھی کیاجاتا ہے اور گالیوں تک سے پرہیز نہیں کیا جاتا ہے، اور یہ سب کچھ عام طور سے بغیر پڑھے ہی کر دیا جاتا ہے، ادھر دو تین پوسٹ پر میں نے بھیجنے والے کو توجہ دلائی ہے تو اس نے اقرار کیا کہ ہم نے بغیر پڑھے صرف سرخی دیکھ کر اپنی رائے لکھ دی تھی، ایک نے تو باضابطہ رجوع نامہ لکھ کر ڈالا۔سرخی اور عنوان پڑھ کر کسی نتیجہ تک پہونچنا ممکن نہیں ہوتا کیوں کہ ہوسکتا ہے کہ سرخی لگانے والوں نے غلط سرخی لگادی ہو اور اندر کے مندرجات اس سرخی کے بر عکس ہو، محبت نامہ میں تو یہ ہو سکتا ہے کہ آدمی ’’خط کا مضمون بھانپ لیتا ہوں لفافہ دیکھ کر ‘‘ کہنے کی پوزیشن میں ہو، لیکن خبریں، مضامین ، مراسلات ومقالات میں اس کی گنجائش نہیں ہوتی، جب آپ با قاعدہ مطالعہ کریں گے تو ہو سکتا ہے کہ آپ کی رائے مضمون نگار کے مطابق ہوجائے ، اگر مطابق نہ ہوتو بھی گالیاں دینے اور بُرا بھلا کہنے کا جواز کسی درجہ میں نہیں ہے، قاری کو اس کا حق تو ہے کہ وہ یہ کہے کہ ہماری رائے اس سے الگ ہے، ہم صاحب مضمون اور مقالہ نگار سے متفق نہیں ہیں، وہ یہ بھی کہہ سکتا ہے کہ میرے علم کے مطابق یہ بات صحیح نہیں ہے، لیکن مضمون پر غیر علمی بنیادوں پر تنقید کا کوئی حق نہیں ہے۔
ایسی تنقید صرف برائے تنقیص ہوتی ہے، صحیح طریقۂ کار یہ ہے کہ مضمون شروع سے اخیر تک پڑھیے، جن جملوں میں آپ کو علم کی تعبیر کی، فکر کی اور اسلوب کی غلطی نظر آئے اس کا تجزیہ کیجئے، تجزیہ کرتے وقت یہ بھی دھیان رہے کہ ممکن ہے آپ جو کچھ لکھ رہے ہیں وہ آپ کے اپنے علم کے اعتبار سے ہو، صحیح وہی ہو جو مضمون میں لکھا گیا ہو، کسی نے کوئی لقب کسی شخص کو دیا وہ مشہور بھی ہوا، لیکن آپ کے علم میں یہ بات نہیں تھی۔ خوب اچھی طرح یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ ہر آدمی اپنے مبلغ علم سے لکھتا ہے ، وہ آپ کے علم، تجربہ اور مشاہدہ سے لکھنے کا نہ تو پابند ہے اور نہ ہی یہ ممکن ہے۔
سوشل میڈیا پر وہاٹس ایپ یونیورسیٹی کے شرکاء اس طرح اپنی رائے لکھتے ہیں جیسے اس فن پر انہوں نے پی ایچ ڈی کر رکھی ہو، حالاں کہ اگر اندر تک جائیں اور صرف پوسٹ کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوگا کہ نہ ان کی فکر صائب ہے، نہ زبان ان کو آتی ہے، تذکیر و تانیث کی فاش غلطیاں، رسم الخط خلاف قاعدہ اور جملے بے ترتیب، ایسے لوگ بھی تال ٹھوک کر میدان میں آجاتے ہیں اور اپنی غلطیوں کے پُشتارے کو جواز عطا کرنے کے لیے ایسی ایسی تاویلیں کریں گے کہ اچھا خاصہ آدمی پاگل ہو کر رہ جائے۔ پھر اس کی حمایت میں بھی کچھ لوگ اتر آتے ہیں اور پھر غیر ضروری بحثوں کا ایسا طویل سلسلہ چل پڑتا ہے کہ الامان والحفیظ ۔
ضرورت اس طریقہ کار کو بدلنے کی ہے۔ ایک تو یہ کہ بغیر اجازت گروپ میں کسی کا نمبر شامل نہ کریں، غیر ضروری پوسٹ ڈال کر اپنا اور دوسروں کا وقت خراب نہ کریں، بات سمجھ میں نہیں آ رہی تو سمجھنے کی کوشش کریں، اس کوشش میں آپ اپنے اساتذۃ اور دوستوں کو بھی شامل کر سکتے ہیں، آپ جو کچھ لکھتے اور بولتے ہیں، اس سے آپ کی ذہنی افتاد بلکہ خاندانی تربیت کا بھی پتہ چلتا ہے، جب تک آپ کچھ نہیں لکھتے بولتے ہیں اس وقت تک آپ کا عیب وہنر چھپا رہتا ہے، مشہور ہے کہ
تامرد سخن نگفتہ باشد عیب وہنرش نہفتہ باشد
اپنی کمی کوتاہیوں کو فاش نہ کریں اسے راز میں ہی رہنے دیں، یہ آپ کی دنیاوی عزت اور اخروی نجات کے لیے بھی بہتر اور ضروری ہے، اللہ رب العزت نے آپ کی گفتگو پر پہرہ بٹھا رکھا ہے، بے اختیار نوک قلم پر یہ مصرعہ آگیا۔
لفظ لفظ تولیے پھر زبان کھولیے
ازقلم: مفتی محمد ثناء الہدیٰ قاسمی
نائب ناظم امارت شرعیہ بہار ، اڈیشہ وجھارکھنڈ