پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا

بسم اللہ الرحمن الرحیم

آج خوشیوں سے بھرا عید کا دن تھا۔ رب کی عبادت کے لئے مسجدوں اور عید گاہوں میں صف در صف مسلم نوجوانوں کی قطاریں، موتیوں کی طرح بکھیرے معصوم بچے ‌،ساتھ ہی اسلام کی خواتین اور معصوم بچیاں ہر ملک ہر شہر میں مساجد کی رونق بڑھا رہی تھیں ۔
نمازی آپس میں عید ملتے ہوۓ ایک دوسرے کو دعا دینے میں مصروف تھے۔رب کے شکر گزار بندوں کو اس پر مسرت موقعہ پر کسی قسم کا خوف و ہراس نہ تھا۔ لیکن اس با رونق دن میں اچانک سے مسجدیں خوف و ہراس سے لرزاں اٹھی۔ ہر سو جہاں دعاؤں کے صدائیں بلند تھی وہی چیخ و پکار سے زمین و آسمان دہل گیا تھا۔
کچھ یوں ہوا تھا کہ عید الاضحی کے موقع پر ایک شہری سلوان مومیکا، جو کہ سویڈن میں رہنے والا ایک عراقی باشندہ ہے اس کو اسٹاک ہوم کی مرکزی مسجد کے باہر سویڈن پولیس کی جانب سے احتجاج کی اجازت دی گئی جس کے بعد اس ملعون نے نعوذ باللہ قرآن پاک کے اوراق جلا دیئے۔ یوں تو اس دل خراش سانحہ کو اگرچہ دو سے تین ہفتے کا عرصہ بیت چکا ہے؛ مگر مساجد کے باہر ہونے والے ان دہشت گردانہ حملوں کے خلاف احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔ نسلی اور مذہبی تعصب کے خلاف سعودی وزارت خارجہ نے مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ان نفرت انگیز اور بارہا دہرائے جانے والی کارروائیوں کو کسی جواز کے ساتھ قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اس کے علاوہ پاکستان اور عراق نے حکومت سویڈن کی جانب سے ایک انتہا پسند کو نعوذ باللہ قرآن مجید جلانے کی اجازت دینے کے فیصلے کی مذمت کی۔ اس کے علاوہ مصر، بغداد، ایران اور دیگر مشرق وسطی کے ملکوں نے بھی سویڈن میں قرآن کی بے حرمتی کی مذمت کرتے ہوۓ خبردار کیا ہے کہ اس طرح کا عمل دنیا بھر کے مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچاتا ہے۔ ساتھ ہی ہمیں چاہیے کہ ایسے ممالک جہاں اسلام کے خلاف صداۓ بلند کی جاتی ہیں ان سے سفارتی تعلقات کو وقتی طور پر ختم کر دینا چاہیے اور ایسا صرف مسلم ملکوں ہی کو نہیں کرنا چاہیے بلکہ ہندوستان جیسے ملکوں کو بھی آگے آنا چاہیے اور اس طرح کے شرمناک افعال کی مذمت کرنی چاہیے تاکہ دنیا میں دوبارہ کہیں کسی مذہبی عقیدے کی کوئی توہین نہ کرسکے۔
قارئین کرام! لیکن کفار اسلام اور فرنگیوں کی جانب سے قرآن کو ختم کرنے اور اس سے لوگوں کو دور رکھنے کا یہ کوئی پہلا واقعہ نہیں تھا، بلکہ 1857 میں چن چن کر یہ سوچ کر ہزاروں علمائے کرام کو شہید کیا گیا کہ نہ دین کے ٹھیکدار رہیں گے نا ہی اسلام رہے گا۔ ساتھ ہی ایسی کئ لائیبریریاں جلا کر راکھ کردی گئی جن میں دینی و دنیاوی علماء کی شاہکار کتابیں موجود تھیں۔ اتنا ہی نہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں یعنی چودہ سو برس پہلے بھی جنگ یمامہ میں حفاظ کرام کو قتل کرکے دشمنوں نے یہی کوشش کی تھی کہ دنیا سے قرآن کو نیست ونابود کر دیا جائے۔ لیکن یہ تمام کفار اسلام کی کوشش تھی کہ لائبریریاں جلانے اور علماء و حفاظ کو مٹانے سے ختم ہوجائے گا۔ اتنا ہی نہیں صدیوں سے کتنی ہی تحریکیں ایسی چل رہی ہیں جن کا مقصد قرآن کے الفاظ میں رد و بدل کرنا کرنا یا قرآن کے ایسے مفہوم سمجھاۓ جا رہے ہیں جو نعوذ باللہ صحابہ کرام نہ سمجھ سکے۔ تو کیا ان کے قرآن نذر آتش کرنے سے اسلام نیست و نابود گیا؟ کیا اسلام ختم ہوگیا؟؟؟ کیا اسلام کا چراغ بجھ گیا؟؟؟نہیں بالکل نہیں آج بھی قرآن محفوظ ہے اور یاد رکھے یہ ہمیشہ جگمگا تا رہا ہے اور تا ابد جگمگاتا رہے گا کیونکہ قرآن دو چار صفحات کا کوئی چھوٹا صحیفہ نہیں ہے، بلکہ قرآن‌ ایک ایسا معجزہ ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں کی جاسکتی۔ جہاں اس کے حافظوں کی تعداد لامحدود ہے وہیں اس کتاب کے پڑھنے والوں کے ساتھ ہی اس کتاب کے سننے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ اس لئے اگر پوری دنیا کے قرآن کے نسخوں کو کوئی ضبط بھی کر لے، جلا بھی دے پھر بھی قرآن کو دنیا سے ختم نہیں کر سکتا۔ پھونکوں سے یہ چراغ بجھایا نہ جائے گا۔ کیونکہ اس کا محافظ خود ذاتِ باری تعالیٰ ہے: إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ ہم نے ہی اس ذکر قرآن کو نازل فرمایا ہے، اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔ [سورة الحجر: 9]
دنیا میں ایسے کئ اشرار پسندوں نے اپنے شر سے دین اسلام کو نقصان پہچانا چاہا جیسے اسلام کا دشمن ابو جہل یا مسلیمہ کذاب یا پھر دنیا کے بعض شر پسند نام نہاد دانشور سب یہ سدا سے کرتے چلے آئے ہیں لیکن قرآن کریم کی صداقت اور عظمت اپنی جگہ محفوظ ہے۔
"وہ چاہتے ہیں کہ الله کے نور کو بجھا دیں اپنے مونھوں کی پھونکوں سے او رالله تعالیٰ اپنے نور کی تکمیل کرکے رہے گا، چاہے یہ بات کافروں کو کتنی ہی ناگوار لگے۔“ (الصف:8)
لیکن اللہ نے اس کلام کی حفاظت اپنے ذمے رکھ لی ہے تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم اسلام کے ان دشمنوں کی طرف سے آنکھیں بند کرکے خاموش تماشائی بنے رہیں اور اسلام و قرآن کی اہانت ہونے دیں بلکہ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم فرقوں سے نکل آئے اور وحدت امت بن‌ جاۓ ہماری ساری طاقت ہمارے اتحاد و اتفاق میں ہے۔
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشید مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے

ایک طرف جہاں دشمنان اسلام کی یہ بزدلانہ اور وحشیانہ حرکت تھی تو دوسری طرف نور خدا کی طرف سے یہ نکلتے ہوئے سورج کی افق تابی ہے۔ جس چیز کی حفاظت اللہ تعالی کرے اس کے ضائع ہونے کے بارے سوچنا بھی محال ہے۔ جہاں سویڈن‌ میں ایک طرف قرآن‌ کو نذر آتش کیا گیا وہیں اسی سویڈن میں قرآن کریم کی تلاوت کی گئی قرآن‌کریم کے لئے ریلی نکالی گئی۔ یہ ہے وہ تدبیرجو رب العالمین نے کی بےشک میرا رب العالمین بہترین تدبیر کر نے پر قادر ہے۔ جب جب اسلام کے خلاف صداۓ بلند کی جاتی ہیں تو ایسے موقعہ پر لوگوں میں اسلام کو جاننے اور سمجھنے کے خواہش بڑھ جاتی ہے جس کی بدولت لوگ جوق در جوق اسلام قبول کرنے لگتے ہیں۔ یاد رکھیں اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے کہ اتنا ہی ابھرے گا جتناکہ دباؤ گے۔ اس لئے ہمیں چاہیے کہ ایسے موقعوں کو اسلام کی صحیح تصویر پیش کرنے کے لئے، اور لوگوں کو قرآن سے جوڑنے کے لیے بطور غنیمت استعمال کرنا چاہئے۔ اس قرآن سے محبت کا حق ادا کرے اسے سینے سے لگائیں، اسے حفظ کرے ساتھ ہی اس کے مطابق عمل پیرا رہے۔ اپنی نسل کو قرآن سے آشنا کریں۔ اسے اپنا دستور زندگی بناۓ۔ مغربی تعلیمی نظام کی بجائے ان کو قرآن و حدیث سے جوڑیں تا کہ ہم بھی اور ہماری آنے والی نو خیز نسل بھی شیطانی فتنوں سے محفوظ رہے۔ اگر ہم یہ کام کر گزریں، تو کسی سلوان مومیکا کو اس درندگی کی ہمت نہ ہو سکے گی۔ ہم نے قرآن ‌کو سمجھا ہی نہیں اسے ثواب و ادب کی کتاب سمجھ کر تعویزوں، جزدانوں اور طاقوں تک ہی محدود رکھ دیا یہ انقلاب کی کتاب ہے اسے ہم نے مسجدوں اور مدرسوں تک ہی محدود کردیا۔

طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں
دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں

ہم "خیرکم من تعلم القرآن و علمه” کی تصویر بنے یعنی وہ بہترین لوگ بنے جو قرآن کو سیکھتے ہیں سکھاتے ہیں ساتھ ہی اس کے ہر احکام پر عمل پیرا رہتے ہیں. اور قرآن کے پیغام کو لوگوں میں عام کرے۔ ہم نام نہاد مسلمان اور اسلام کے ٹھیکیدار بن کر نہ رہ جائے بلکہ اسلام کی ابدی تعلیمات کو زندگی میں شامل کرے۔

حُسنِ کِردار سے نُورِ مجسم ہوجا
کہ ابلیس بھی تُجھے دیکھے تو مسلمان ہوجاۓ

ازقلم
سمیہ بنت عامر خان

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے