حضرت عمر فاروق ؓ کا علمی مقام اور مرتبہ

جب سے یہ کائنات معرض وجود میں آئی ہے۔ اس وقت سے علم کی فضیلت و اہمیت محتاج بیاں نہیں رہی۔ علم اور صاحب علم کو زمانے نے ہمیشہ قدرومنزلت عطا کی۔ جناب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کے وقت عرب میں لکھنے پڑھنے کا رواج نہ تھا؛چنانچہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہوئے تو قبیلہ قریش میں صرف سترہ آدمی ایسے تھے جو لکھنا جانتے تھے، حضرت عمرؓ نے اسی زمانہ میں لکھنا اور پڑھنا سیکھ لیا تھا۔ ( تاریخ الخلفاء) حضرت عمرؓ کے فرامین، خطوط، اورخطبے اب تک کتابوں میں محفوظ ہیں، ان سے ان کی قوت تحریر، برجستگی کلام اور زور تحریر کا اندازہ ہوسکتا ہے، بیعت خلافت کے بعد جو خطبہ دیا اس کے چند فقرے یہ ہیں: اللہم انی غلیظ فلینی، اللہم انی ضعیف فقونی الاوان العرب جمل انف وقد اعطیت خطامہ الاوانی حاملہ علی المحجۃ "اے خدا میں سخت ہوں تو مجھ کو نرم کر، میں کمزور ہوں مجھ کو قوت دے، ہاں عرب والے سرکش اونٹ ہیں جن کی مہار میرے ہاتھ میں دیدی گئی ہے ؛لیکن میں ان کو راستہ پر چلا کر چھوڑوں گا۔” قوت تحریر کا اندازہ اس خط سے ہوسکتا ہے جو حضرت ابوموسیٰ اشعری ؓ کے نام لکھا گیا تھا، اس کے چند فقرے یہ ہیں: اما بعد فان القوۃ فی العمل ان لا توخروا عمل الیوم لغد فانکم اذا فعلتم ذلک قدارکت علیکم اعما لکم فلم تدروا ایھاتا خذون فاضعتم "اما بعد!مضبوطی عمل کی یہ ہے کہ آج کا کام کل پر نہ چھوڑو، ایساکروگے تو تمہارے بہت سے کام جمع ہوجائیں گے، پھر پریشان ہوجاؤگے کہ کس کو کریں اورکس کو چھوڑیں، اس طرح کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔”
فصاحت وبلاغت کا یہ حال تھا کہ ان کے بہت سے مقولے ضرب المثال بن گئے جو آج بھی عربی ادب کی جان ہیں، علم الانساب میں بھی یدطولی ٰ حاصل تھا، یہ علم کئی پشتوں سے ان کے خاندان میں چلاآتا تھا، ان کے والد خطاب مشہور نساب تھے، جاحظ نے لکھا ہے کہ جب وہ انساب کے متعلق کچھ بیان کرتے تھے تو اپنے باپ کا حوالہ دیتے تھے، ( کتاب البیان ج1 ص 117 ) معلوم ہوتا ہے کہ مدینہ پہنچ کر عبرانی زبان بھی انہوں نے سیکھ لی تھی، (مسند دارمی: 26) عمر رضی اللہ عنہ فطرۃ ذہین طباع، اور صائب الرائے تھے، اصابت رائے کی اس سے زیادہ اور کیا دلیل ہوسکتی ہے کہ ان کی بہت سی رائیں مذہبی احکام بن گئیں، اذان کا طریقہ ان کی رائے کے موافق ہوا، اسیران بدر کے متعلق جو رائے انہوں نے دی وحی الہی نے اسی کی تائید کی، شراب کی حرمت، ازواج مطہرات ؓ کے پردہ اور مقام ابراہیم کو مصلی بنانے کے متعلق عمر رضی اللہ عنہ نے نزول وحی سے پہلے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کو رائے دی تھی۔ (تاریخ الخلفاء صفحہ 12) آپ کو بارگاہ نبوت میں جو خاص تقرب حاصل تھا، اس کے لحاظ سے ان کو شرعی احکام اورعقائد سے واقف ہونے کا زیادہ موقع ملا، طبیعت نکتہ رس واقع ہوئی تھی اس لیے آئندہ نسلوں کے لیے اجتہاد اور استنباط مسائل کی وسیع شاہراہ قائم کردی، وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں بھی شرعی مسائل پر غور و فکر کیا کرتے تھے اور جب کوئی مسئلہ خلاف عقل معلوم ہوتا تو اس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا کرتے تھے، سفر میں قصر کا حکم دے دیا گیا تھا؛لیکن جب راستے مامون ہو گئے تو عمر رضی اللہ عنہ نے دریافت کیا کہ اب سفر میں یہ حکم کیوں باقی ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:یہ خدا کا انعام ہے۔”مسائل دریافت کرنے میں مطلقاً پس وپیش نہیں کرتے تھے اور جب تک تشفی نہ ہوجاتی ایک ہی مسئلہ کو بار بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے تھے، نہایت غوروتوجہ کے ساتھ قرآن پاک کی تلاوت کرتے تھے، ہر ایک آیت پر مجتہدانہ حیثیت سے نگاہ ڈالتے تھے، قرآن مجید سے استدلال میں بڑی مہارت رکھتے تھے،
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مرفوع روایات کی تعداد ستر کے قریب ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اس قدر فقہی مسائل منقول ہیں کہ اگر جمع کیے جائیں تو ایک ضخیم کتاب تیار ہوسکتی ہے، استنباط احکام اور تفریع مسائل کے لیے بھی انہوں نے ایک شاہراہ قائم کردی تھی، مختلف فیہ مسائل کے طے کرنے کے لیے اجماع صحابہ جس کثرت سے عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں ہوئے، پھر نہیں ہوئے۔ اللہ تبارک و تعالی سیدنا فاروق اعظم رضی اللہ عنہ پر خصوصی فضل و کرم فرمائے۔ اور اور اپنے شایان شان ان کے درجات بلند فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

تحریر: نور حسین افضل
صدر: پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ (مشرق وسطی)
صدر: کالمسٹ ایسوسی ایشن اف پاکستان (مشرق وسطی)

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے