اناللہ و انا الیہ رجعون!
ایک علاقے کے ایک ہمارے فکر مند ساتھی نے ابھی کچھ دیر پہلے واٹس ایپ اور کال پر بتایا کہ ہمارے علاقے کی ایک لڑکی(عائشہ نامی) جو اسکول میں پڑھتی ہے۔ اس سے کسی طرح ہمارا رابطہ ہوگیا تو ہم نے اس کو حفظ ماتقدم کے طور پر نصیحت کی کہ حالات ٹھیک نہیں چل رہے ہیں ، ہوشیار اور چالاک رہنا۔ ہندو لڑکے مسلم لڑکے بن کر مسلم لڑکیوں کو پھنساتے ہیں۔
اس پر لڑکی نے جواب دیا کہ یہ کیا بات کر رہے ہیں آپ ؟ میرا خود ایک ہندو بوائے فرینڈ ہے اور وہ مجھ سے سچا پیار کرتا ہے۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا ہے۔ وہ کہتا ہے میں تیرے بغیر مر جاؤں گا۔
ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ میں نے اس کو سمجھانے بجھانے کی کوشش کی ؛ مگر معاملہ بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ لڑکی نے بتایا کہ "لڑکا مجھ سے کثرت سے بدکاری کرتا ہے۔ اور جب بھی بدکاری کرتا ہے، اس کی ویڈیو بناتا ہے۔ اب کہتا ہے کہ اگر مجھ سے شادی نہ کی تو تیری یہ ساری ویڈیو شوشل میڈیا پر ڈال دوں گا۔ اب بتائیے میں کیا کروں؟ مجبوراً کچھ دنوں(یا سالوں کے) بعد ہم دونوں کورٹ میرج کرنے جا رہے ہیں۔”
ہمارے ساتھی کہتے ہیں کہ اس لڑکی کی یہ دل خراش باتیں سن کر میرے آنسو چھلک پڑے۔ ہاتھ کپکپانے لگے۔ میں نے مزید سمجھانے بجھانے کی کوشش کی، اور اس کے والدین سے مل کر یہ ساری واردات بتانے کی غرض سے اس کا پتہ معلوم کیا۔ لڑکی نے اپنا پتہ وغیرہ بتا دیا ہے۔
اب ہمارے وہ ساتھی اور کچھ علماء کرام اس لڑکی کے والدین سے مل کر اس معاملے کو سلجھانے کی عن قریب کوشش کریں گے۔
بعض شرم ناک باتیں ہم نے لکھنے سے گریز کیا۔
یہاں پر ہم کہنا یہ چاہتے ہیں کہ یہ سارے معاملات ہوئے کیوں ؟ اس کے پیچھے اسباب کیا ہیں ؟ اس کا ایک سبب تو مسلم لڑکیوں کو غیروں اور کافروں کے اسکولوں میں بھیجنا ہے۔ دوسرا سبب مخلوط تعلیم ہے۔ تیسرا سبب والدین اور گھر والوں کی لڑکی سے لاپرائی ہے۔
اور بھی اس کے مختلف اسباب ہو سکتے ہیں۔
آپ غور کیجیے! اگر عائشہ کسی اسلامی اسکول میں پڑھ رہی ہوتی ، اگر عائشہ مخلوط تعلیم(لڑکے لڑکیوں کے باہم مل جل کر پڑھنے) کے بجائے کسی جداگانہ تعلیم گاہ(جہاں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے یکجا کے بجائے علاحدہ طور پر تعلیم کا نظم ہو) حاصل کر رہی ہوتی ، اگر عائشہ کے والدین کی اس پر کڑی نظر ہوتی اور اس کی تربیت کی فکر ہوتی ، تو آج عائشہ کسی کافر کے چنگل میں پھنس کر اس کے ہوس کا شکار نہ بن بنتی اور نہ وہ کسی کافر سے کورٹ میرج کرنے پر یوں مجبور ہوتی۔
مسلمانوں کو بہت زیادہ ہوش میں آنے کی ضرورت ہے۔ اس کے بغیر یہ ارتداد اور کفار کے ساتھ مسلم لڑکیوں کے بھاگنے ، فرار ہونے اور کورٹ میرج کرنے کا معاملہ تھمنے والا نہیں ہے۔
ہاں ، ایک بات یہ بھی کہنا چاہتے تھے کہ اگر خدا نہ خواستہ ہماری کسی بہن کے ساتھ ایسا معاملہ پیش آ جائے ، تو وہ زیادہ پریشان نہ ہو ؛ بلکہ وہ اپنے معاملے کو اپنے والدین اور ذمے داروں کے سامنے رکھ دے۔ اور والدین ایسے موقع پر اپنی بچی کے ساتھ ہم دردی کا مظاہرہ کریں۔ اور لڑکی پر زیادتیاں نہ کریں۔ پورے معاملے کی اچھی طرح جانچ کریں اور مناسب لگے یا ضرورت محسوس ہو تو اپنے شہر اور علاقے کے بڑے اور بااثر مسلم سیاسی لوگوں سے مل کر بھی اس کا بہترین حل نکال سکتے ہیں۔ بہترین حل کا مطلب یہ ہے کہ جو غیر مسلم شخص لڑکی کو غلط استعمال کر رہا تھا اور اپنی غلط کاری کی ویڈیو وغیرہ بنا رکھی ہو اور اسے وائرل کرنے کی دھمکی دے دے کر لڑکی کا غلط استعمال کرتا رہا ہو ، تو ایسے شخص کو الٹے پھنسانے کی کوشش کی جائے۔(اگر وہ واقعی قصور وار ہو) پھر بجائے اس کے کہ وہ لڑکی کی ویڈیو وائرل کرکے لڑکی کو بدنام کرے ، وہ خود ہی اپنی جان بچانے کے لیے ترسے گا۔ مزید اس سلسلے میں جو بھی مناسب باتیں سمجھ میں آئیں ، ہماری بہن بیٹیوں اور ان کے والدین کو موقع پر ان کو اختیار کرنا چاہیے۔ محض ویڈیو وائرل کرنے کی دھمکی سے خوف زدہ ہو کر ہماری بہن بیٹیاں کسی کافر کے چنگل میں نہ پھنسی رہیں! کسی کافر کے ہوس کا شکار نہ بنی رہیں! اس سے آزادی اور خلاصی کی ہر ممکن کوشش کر ڈالیں!
اللہ ہم سب کے دین و ایمان کا محافظ و نگہبان ہو!
ازقلم: خالد سیف اللہ صدیقی