الحاج گلزار احمد اعظمی ایک فرد نہیں، بلکہ ایک انجمن تھے

گزشتہ اتوار (20/اگست 2023ء) کو جمعیۃ علماء ہند کی قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ جناب گلزار احمد اعظمی صاحب کے انتقال کی خبر سوشل میڈیا پر وائرل ہوتے ہی جمعیت علماء ہند کے محبین میں سناٹا چھا گیا،جو جہاں تھے وہیں غم کی دنیا میں ڈوب گئے،ماحول سے ایسا باور ہورہاتھا کہ باری تعالیٰ ان لوگوں سےاچانک خوشی سلب کرلیاہو۔ پھر جب انھیں چند وقفوں بعد سکون ملا،تو انھوں نے دعائے خیر کا سلسلہ شروع کردیا ،جس کا اثر یہ دیکھنے کو ملا کہ سوشل میڈیا ہو یا اردو اخبارات ،ہر ایک میں بس حضرت ہی کے لیے دعائے مغفرت والی تحریریں بکثرت نگاہوں سے گزرنے لگیں۔یقینا ان کی ان دعائیہ تحریروں سے معلوم ہوا کہ اس کرہ ارضی پر الحاج گلزار احمد صاحب کو چاہنے والے بہت لوگ ہیں،اور حقیقت بھی یہی ہے کہ جوانسان صدق دل سے کام کرتاہے،تو اس سے زمین والوں کو طبعی محبت ہوجاتی ہے اور یہ محبت خالق ارض و سما ان کے دلوں میں ودیعت کردیتےہیں۔
یوں تو مرحوم جناب الحاج گلزار احمد صاحب سے اس حقیر کی ملاقات بالمشافہ نہیں ہے ؛ مگر انھوں نے گاہے بگاہے اپنے کارہائے نمایاں کے ذریعے اخبارات کی دنیامیں اتنا دھوم مچایا ہے کہ ہر اخبار میں جناب الحاج گلزار احمد صاحب ہی نظر آتے تھے،جس کی بناء لگتا ہی نہیں تھا کہ ان سے میری ملاقات نہیں ہے؛بل کہ ایسا لگتا تھا کہ ان سے میری ملاقات کئی دفع ہوچکی ہو ۔ یہی وجہ ہے کہ مرحوم کی غیر معمولی عقیدت و محبت اس حقیر کے دل میں جاگزیں ہوگئی،جو تادم حیات باقی رہے گی۔
جناب الحاج گلزار احمد صاحب کوئی عالم دین تو نہیں تھے؛مگر اہل علم کے قدرداں تھے اور ان کے دل میں امت کا بڑا درد تھا،ہر وقت امت ہی کی فکر میں ڈوبے رہتے تھے ۔ انھیں جوں ہی پتہ چلتا کہ فلاں شخص بے قصور جیل کی سلاخوں میں بند ہے اور بلا وجہ وہ اغیار کے مظالم کا تختہ مشق بناہوا ہے،تو اسے ظالموں کے ظلم و استبداد سے بچانے اور اس کی رہائی کے لیے ہرممکنہ تدابیر اختیار کرکے باعزت جیل سے رہا کراتے ،اور ان مظلوموں کی رہائی کا وقت انتہائی قابل دیدنی ہوتا کہ ظالموں کی آنکھیں خیرہ ہو جاتیں اور غایت شرمندگی کی بناء ان کے سر بھی جھک جاتے ۔
واضح رہے کہ الحاج گلزار احمد صاحب کا جمعیت علماء مہاراشٹر کے پلیٹ فارم سے بے قصوروں اور بے گناہوں کو جیل کی سلاخوں سے رہائی کرانے کا عمل بلاتفریق مذہب تھا۔ ایسا بالکل نہیں کہ مرحوم صرف مسلمانوں کو اپنی محنت شاقہ سے رہا کراتے تھے ؛بل کہ بہت سے غیرمسلموں کو بھی رہا کرایاہے۔ الغرض مرحوم کے مدنظر بے قصور اور بے گناہ ہونا تھا ؛قطع نظر اس کے کہ وہ کس مذہب کا متبع ہے۔
یقینا آزادی انسانوں کے لیے ایک بڑی نعمت ہے ،جو جیل کی قید و بند کی صورت میں چھن لی جاتی ہے،اور قید و بند کی زندگی،غلامانہ زندگی سے بھی بدتر ہے۔ اگر کسی کو قید و بند کی زندگی کسی ناقابلِ عفو جرم کی بناء بطور سزا ملی ہے ،تو اس سے لوگوں کو کوئی تکلیف نہیں، بل کہ خوشی ہی ملتی ہے کہ ہمیں ایک مجرم کے جرم سے چھٹکارا تو ملا،اور اگر کسی شخص کوقید و بند کی زندگی بلا کسی وجہ،محض ایک مذہبی عناد اور اپنی بالادستی کی بناء ملی ہو تو یہ بہت بڑا ظلم ہے اس شخص پر اور لوگوں میں یہ بے چینی کا بہت بڑا سبب ہے؛ اس لیے جب ایسے شخص کو جیل سے رہائی نصیب ہوتی ہے تو پھر یہ اپنے معتق کا تاحیات شکر گزار رہتا ہے،یہی وجہ ہے کہ آج گلزار احمد صاحب گرچہ دنیا سے جانے کو چلے گئے ہیں ،مگر لوگوں کے دلوں میں اب بھی زندہ ہیں اور عرصہ دراز تک زندہ ہی رہیں گے۔
جناب الحاج گلزار احمد اعظمی کا انتقال،ملت کا ایک بڑا خسارہ ہے؛کیوں کہ جمعیت علماء ہند مہاراشٹر کے پلیٹ فارم سے انھوں نے جو نمایاں کام کیا ہے :یعنی جیل سے بے قصورر قیدیوں کی رہائی والے اعمال،انتہائی بڑے تھے،جو کسی ایک فرد سے وجود میں آنے والے نہیں تھے،مگر گلزار اعظمی صاحب نے تنہا اسے کردکھایا،جس کی بناء ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ ایک فرد نہیں ،بل کہ ایک انجمن تھے اور ایسےلوگ صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں،جو اللہ کی طرف سے کسی نعمت سے کم نہیں ہوتے ہیں۔
باری تعالیٰ ان کی خدمات قبول فرمائے، تمام سئیات کو حسنات سے مبدل فرمائے،جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے،نیز جمعیت علماء ہند کو ان کا نعم البدل عطا فرمائے آمین۔

ازقلم: انوار الحق قاسمی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے