ایفائے عہد

اور عہد کو پورا کرو کیونکہ عہد کے بارے میں تم سے تو چھ کچھ کی جاۓ گی”۔ مومنوں کےسلسلہ میں جو قرآن میں لازمی ہدایت دی گیٔ ہیں ۔ان میں سے ایک ایفائے عہد بھی ہے۔انسانوں کے باہم مضبوط تعلقات اور معملات کی بنیاد عہد ہی ہوتا ہے۔باہم عہد اور کسی سے کیے جانے والے وعدے اور عہد کو اگرکوںٔی قیمت اور اہمیت نہیں دی جائے گی ‘تو سماج میں اعتماد ختم ہو جائے گا ،اور افراتفری میں اضافہ ہو جائے گا ،ظلم اور نا انصافی عام ہو جائے گی ۔سورہ العمران:76 میں کہا گیا ہے کہ”جو لوگ اس کے عہد کو پورا کریں گے اور اللہ سے ڈریں گے تو بے شک اللہ اپنے سے ڈرنے والوں کو دوست رکھتا ہے” ۔اس آیت میں عہد کو تقوی اور خدا کی خوشنودی حاصل کرنے کا راستہ کہا گیا ہے۔ عہدشکنی منافقین کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے اللہ کے رسول نے اسے منافقین کی ایک نشانی بتاںٔی ہےکہ جب وہ عہد کرتے ہیں تو توڑ ڈالتے ہیں ۔عہد کے سلسلے میں اللہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم بہت محتاط رہتے تھے ۔ان کی احتیاط کی ایک مثال صلح حدیبیہ ہے ۔صلح حدیبیہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور دشمنان اسلام یعنی کفار کے درمیان ہوںٔی تھی ۔اس، صلح کے مطابق مکہ سے بھاگ کر کو ںٔی مدینہ آتا ہے تو اسے مکّہ واپس کرنا پڑے گا۔ جبکہ مدینہ سے بھاگ کر مکّہ جانے والوں کو واپس کرنا ضروری نہیں ہوگا ۔ جب یہ صلح حدیبیہ ہو رہی تھی ، اس وقت مو منین کی ایک بڑی تعداد کی بڑی راۓ اس کے خلاف تھی،صحابہ اکرام کی ایک بڑی تعداداس کے حق میں نہیں تھی ۔لیکن اللّٰہ کے رسول محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کی ہر شرط قبول کر لی کیونکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جنگ کی بجائے امن کا ماحول چا ہتے تھے ۔جب یہ قرار نامہ تکمیل کو پہنچ گیا تو ایک صاحبی جن کا نام ابوجندل رضی اللہ عنہم ہے۔بیڑیوں میں جکڑے لڑکھڑاتے ہوئے آزادی کی فریاد لے کر بارگاہ رسالت میں حاضر ہوئے ،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابی ہونے کی وجہ سے قریش نے ان کو کافی زدوکوب کیا تھا ،ان کے پاؤں میں بیڑیاں ڈال رکھی تھیں ۔عہد کے مطابق ہمیں ابو جندل رضی اللہ عنہم کو واپس لو ٹانا جاہیے تھا ،لیکن اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا موقف یہ تھا کہ قرارداد ہو جانے کے بعد خواہ ہمارا کچھ بھی فائدہ ہو یا نقصان قرارداد توڑنا صحیح نہیں ہے۔ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اپنے موقف پر قائم رہے ،اللّہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چاہتے تھے کہ ابو جندل رضی اللہ عنہم کو کافروں کے حوالے کیا جائے ،لیکن ابو جندل رضی اللہ عنہم کو بادل ناخواستہ لوٹانا پڑ رہا تھا ۔یہ اللّٰہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی ایفاۓعہد کی ایک شاندار مثال ہے ۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت میں ہر زمانے اور ہر انسان کے لیےایک شاندار مثال اور نمونہ ہے۔ لیکن افسوس کے اخلاقی انحطاط اور پستی کی وجہ سے آج معاشرے میں وعدہ خلافی کی نوع بہ نوع صورتیں مرّوج ہو گیٔ ہیں اور لوگوں کے ذہنوں میں اس کی کوںٔی اہمیت باقی نہیں رہ گیٔ عام طور پر لوگ سمجھتے ہیں کہ صرف قرض ،اور دیگر کاروباری معاملات میں ہی ایفاۓعہد کا خیال رکھا جائے ،لیکن حقیقت یہ ہے کہ زندگی کے جتنے بھی معملات ہیں جیسے کہ نکاح ،خرید و فروخت ،شرکت اور پارٹنرشپ دو طرفہ عبارت ہے۔ دو طرفہ معاہدہ اور وعدہ عقد بھی کہلاتا ہے ،اللہ نے ایک سے زائد مرتبہ ایفاۓعہد کی طرف متوجہ کیا ہے۔ نکاح کے ذریعہ مرد ،عورت کے ساتھ اخراجات کی ادائیگی ،عزت و عفت کی حفاظت کا عہد کرتا ہے اور ونہی عورت شوہر کی تمام جاںٔز باتوں میں فرمابرداری کا وعدہ کرتی ہے۔ لہزٰا اگر دونوں آپس میں حق تلفی کرے تو صرف حق تلفی اور حکم عدولی کا گناہ ہی نہ ساتھ میں وعدہ خلافی کے بھی گناہگار ہو گے ،اسطرح تجارت اور دیگر معاملات میں دو فریقین ایک دوسرے سے عہد و پیمان کرتے ہیں اور اگر اس عہد کو پورا نہ کیا گیا تو یہ عہد شکنی ہے۔ ایفاۓعہد ‌کی اہمیت ہمیں احادیث کے ذریعے بھی واضح ہو تی ہے ۔ منافق کی 3 نشانیاں بتائ گئ ہیں: جب بات کرے جھوٹ کہے، جب وعدہ کرے خلاف کرے، جب اس کے پاس امانت رکھی جائے خلاف کرے۔ (بخاری، 1/24، حدیث: 33)۔

جب کوئی شخص اپنے بھائی سے وعدہ کرے اور اس کی نیت پورا کرنے کی ہو پھر پورا نہ کر سکے وعدے پر نہ آ سکے تو اس پر گناہ نہیں۔ (ابو داود، 4/388، حدیث: 4995)۔

حضرت عبد اللہ بن ابو الحمساء رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ بعثت سے پہلے میں نے نبی کریم ﷺ سے کوئی چیز خریدی تھی اس کی کچھ قیمت میری طرف باقی رہ گئی، میں نے وعدہ کیا اسی جگہ لاکر دیتا ہوں، میں بھول گیا اور 3 دن کے بعد یاد آیا میں گیا تو آپ اسی جگہ موجود تھے، ارشاد فرمایا: اے نوجوان تونے مجھے تکلیف دی ہے، میں 3 دن سے یہاں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ (ابو داود، 4/388) ۔ ہمیں غو ر کرنا ہو گا کیا ہم اپنے عہد کے پابند ہیں جو ہم اپنے گرد پیش افراد سے مو قع با موقع کرتے ہیں اور ہم نے اپنے رب حقیقی سے بھی ایک عہد لی تھی کہ ہم اُس بندگی کرے گے کیا ہم مکمل طور پر فر یضہ بندگی کے عہد کو پورا کر رہیں ہیں ؟

از قلم : شیرین خالد، پونہ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے